دو نوجوانوں کی ہلاکت،جڑواں شہروں کی پولیس اور تھانہ کلچر کیلئے اقدامات پر سوالیہ نشان
راولپنڈی،اسلام آباد(عزیزعلوی)راولپنڈی کے تھانہ گنجمنڈی میں23 سالہ نوجوان پر مبینہ پولیس تشدد اور وفاقی دارالحکومت میں تھانہ کوہسار کے علاقے بلیو ایریا میں پولیس ناکے پر موٹر سائیکل سوار نوجوان کی ہلاکت کے واقعات نے پولیس اور تھانہ کلچر کیلئے ہونے والے ا قدامات پر سوالیہ نشان چھوڑ دئے آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز نے آر پی او وصال فخر سلطان سے تھانہ گنجمنڈی میں زیر حراست نوجوان ریحان عرف سانو کی موت واقع ہونے کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے آر پی او نے متوفی کے حوالے سے پولیس کی ابتدائی کارروائی بھی حاصل کرلی پیر کے روز جب متوفی کے ورثاء احتجاج کرتے تھانے پہنچے تو تھانے کے گیٹ پر اہل علاقہ کا ہزاروں پر مشتمل شدید غم و غصے میں ڈھلا جلوس بھی موجود تھا تھانے کے باہر توڑ پھوڑ سے یہ امکان بڑھ گیا تھا کہ مشتعل شہری تھانے میں ہی داخل نہ ہوجائیں اس صورتحال پر سی پی او اسرار احمد خان عباسی نے ایس پی راول بہرام خان کی سربراہی میں کمیٹی تو بنا دی لیکن متوفی کے ورثاء اور اہل علاقہ کی اس پر تسلی نہ ہوئی جنہوں نے بعد میں جامع مسجد روڈ پر بھی نعش رکھ کر احتجاج کیا شہری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تھانوں میں ون ونڈو ، مصالحتی اور امن کمیٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک نوجوان کو تھانے لایا گیا لیکن پراسرار حالات میں وہ مارا گیا تھانے کے باہر متوفی نوجوان کی والدہ اور کمسن بہنیں جب اس کے بچھڑنے کا بین کر رہی تھیں تو ان کی چیخ و پکار آسمان کو چھو رہی تھی سی پی او راولپنڈی نے عوام فرینڈلی پولیسنگ کیلئے جو اقدامات کئے نوجوان ریحان کی موت سے ان پر ایک بار پانی پھر گیا اسلام آباد میں ریسکیو15 عوام کے جان و مال کی حفاظت کے ادارے کے طور پر سامنے آیا لیکن اتوار کو تھانہ کوہسار کے علاقے میں ریسکیو15 کے محافظ سکواڈ نے موٹر سائیکل پر سوار تین نوجوانوں کو رکنے کا اشارہ کیا تو موٹر سائیکل چلانے والے کلنٹن نے موٹر سائیکل نہ روکا جس پر پولیس اہلکاروں نے چلتے تیز رفتار موٹر سائیکل پرسوار اس کا بازو ہی پکڑ لیا جس سے تینوں دھڑام سے گر گئے اور ایک نوجوان کلنٹن موقع پر دم توڑ گیا آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری پولیس لائن میں اپنے افسروں اور اہلکاروں کو عوام فرینڈلی لب و لہجہ دلوانے کیلئے کورس پر کورس کرا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ناکے پر پولیس کے ہاتھوں یہ ٹریجڈی ہونا سوالیہ نشان ہے پولیس کو اپنے ناکوں پر کھڑے اہلکاروں کی ورکنگ کے طریقہ کار میں بہتری کیلئے کچھ تو اقدامات کرنا ہوں گے ۔