بد قسمتی سے ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کے وقت حل نہ ہو سکا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کیا گیا تھا اصول یہ تھا کہ مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے پاکستان بنیں گے ان علاقوں میں ہندو اکثریت ہو گی وہ بھارت کی شکل اختیار کر لیں گے۔ اسی فارمولا کے تحت پنجاب اور بنگال کی بھی تقسیم ہوئی تھی۔ بنیادی اصول یہی تھا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں ہندو اور مسلم اور ان کو علیحدہ علیحدہ تقسیم کیا جائے۔ پنجاب، سندھ، سرحد (جو آج کل کے پی کے)، بلوچستان اور بنگال میں مسلم اکثریت شامل تھی اس لیے یہ علاقے پاکستان میں شامل ہوئے۔ اس طرح وہ صوبے جہاں ہندو اکثریت زیادہ تھی وہ بھارت بن گیا۔ ہندو اور مسلمانوں کی قیادتوں نے اس اصول کو تقسیم کیا تھا۔ 3 جون 1947ءکو جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر بھارت یا پاکستان سے الحاق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اس کی سرحدوں کے چھ سو میل مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھے۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی مغربی پاکستان کے ذریعے قائم تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راوالپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں اور کشمیر کی تمام درآمدات اور برآمدات کا راستہ بھی پاکستان سے وابستہ تھا۔ ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطتقی فیصلہ ہونا چاہیئے تھا لیکن مہاراجہ ہری سنگھ اور کانگرسی لیڈروں کے دلی عزائم اس فیصلے کے برعکس تھے۔ انہوں نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازشوں کا ایسا جال بُنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے گرفتار ہوئے۔3 جون 1947ءکے فارمولے کا اعلان ہوتے ہی سب سے پہلے مہاتما گاندھی اور کانگریس کے صدر مسٹر جے۔ بی۔ کرپلانی فوراً کشمیر پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کر کے اپنی سازشوں کے جال کی منصوبہ بندی کر آئے۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی مہاراجہ کشمیر نے یہ چال چلی کہ حکومت پاکستان کے ساتھ ایک Standstill Agreement طے کر لیا جس کی رو سے ریاست کے ڈاک، تار اور تجارتی و کاروباری نظام کو برقرار رکھنے لیے پاکستان کی سر زمین پر پہلے جیسی سہولتیں بدستور برقرار رہیں گی۔ پاکستان نے اسے مہاراجہ کی خیر سگالی کا مظاہرہ سمجھا تاکہ الحاق کا فیصلہ کرنے سے پہلے ریاست کے ذرائع رسل و رسائل اور درآمدات و برآمدات میں کسی قسم کا خلل نہ پڑے، لیکن مہاراجہ کی جانب سے معاہدہ محض دھوکہ تھا۔ کیونکہ ساتھ ہی ساتھ اس ہندوستان کے ذریعہ جنرل پوسٹ آفس لندن کو یہ ہدایات دیں کہ آئندہ ریاست جموں و کشمیر میں آنے والی سب ڈاک نئی دہلی کی معرفت ارسال کی جائے۔ مہاراجہ کی منافقت میں لارڈ ماﺅنٹ سمیت بھارتی حکومت کی سازشانہ شرکت کا یہ ایک بین ثبوت تھا۔
قدرتی لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ درحقیقت پاکستانی قوم کے افراد ہی ریاست میں آباد ہیں ان کا مذہب جغرافیہ، تہذیب و تمدن، تاریخ، اسلامی کلچر سب ایک ہیںاور ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر سے آنےوالے دریا پاکستان کو زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں۔ پانی کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ"کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی غیرت مند قوم اپنی شہ رگ کو دشمن کے حوالے نہیں کر سکتی"۔
مگر ان سب تاریخی شواہد کے ہوتے ہوئے بھارت نے 1947ءمیں فوج کشی کر کے کشمیر کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیااور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ظلم سے تنگ آکر پانچ لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ آج بھی اتنی بڑی تعداد میں کشمیری مسلمان پاکستان میں اس امید پر رہائش پذیر ہیں کہ ایک دن اپنے کشمیر واپس جائیں گے۔اگر یہ مسئلہ پر امن حل نہ ہوا تو چوتھی جنگ کے خطرات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کی نوبت آنے سے پہلے اس دیرینہ تنازع کو باہمی افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38