نظر آ رہا ہے مسلم لیگ ن انتخابات سے بھاگ رہی ہے، شرجیل میمن۔
شرجیل میمن ہر فن مولا قسم کے سیاستدان ہیں، جیل جلاوطنی کاٹ چکے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ دل و جان سے جڑے رہے ہیں۔جیسے شہد کی مکھی چھتے سے جڑی ہوتی ہے۔ شہد کی مکھی کی چھتے میں جان ہوتی ہے۔ میمن صاحب کو ایسے فن آتے ہیں کہ کسی بھی چیز سے شہد برآمد کر لیتے ہیں۔ ان کو ن لیگ الیکشن سے بھاگتی نظر آ رہی ہے۔ یہ تو پیپلز پارٹی کے لئیے نعمتِ غیر مترقبہ ہو گی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اسی پارٹی کو اپنا بڑا حریف سمجھتی ہے۔ بھاگتی پارٹی کی لنگوٹی ہی سہی۔ مسلم لیگ ن تو آئندہ حکومت بنانے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ ان کے کسی لیڈر نے یا لیڈر نما کارکن نے کہہ دیا تھا ہماری اوپر بات ہو گئی ہے۔ ایسے لیڈر پوری پارٹی کو ویسے پھنسا دیتے ہیں۔ بات کرنے جوگا نہیں چھوڑتے۔ ایک نے 21 اکتوبر کے جلسے میں بندے لانے پر اعلان کر دیا تھا ’’ہنڈا دیساں‘‘ استقبال پر تو اب ثواب دارین کی نوید تو ایک بڑے لیڈر کی طرف سے سنائی گئی ہے۔ اب راجہ پرویز اشرف، جنہوں نے بجلی گھر ایجاد کئے انہوں نے کہا ہے کہ ہماری بات بھی ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم بلاول ہی ہونگے مگر ان کی بات ان کے بقول عوام سے ہوئی ہے۔ ہر پارٹی کے اپنے اپنے عوام ہیں۔ کتنے اپنے عوام ہیں؟۔ اس کا پتہ تو انتخابات میں چلتا ہے، وعدے سیاستدانوں کے 25 کروڑ عوام کے ساتھ ہوتے کے ہوتے ہیں۔ بلاول آج کل مسلم لیگ ن کی قیادت پر برس ہی نہیں پلٹ کر جھپٹ بھی رہے ہیں۔ کل تک شیرِ شکر اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ اب الیکشن کا میدان سج رہا ہے اس لیے اپنی جیت کے راستے ہموار کئے جا رہے۔ سیاست بھی عجیب کھیل ہے بلکہ مفادات کا تال میل ہے۔
بدترین دشمن کبھی جگری یار بن جاتے ہیں۔ کبھی وہ دوست، جن کے درمیان ہوا کا گزر نہیں ہوتا خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ بہرحال انتخابی سرگرمیاں شروع ہیں۔ بیانات میں گرما گرمی آ رہی ہے۔ الزامات خزاں کے پتوں کی طرح گرتے ہیں۔ جواب آں غزل بھی سننے کو ملتا ہے۔ الزام دشنام میں ڈھلتا بھی دیکھتا گیا۔ شائستگی بہرکیف ملحوظ بھی رہے تو سیاست دانوں ہی کی نیک نامی ہے۔ پرویز خٹک صاحب کے پی کے سیاسی میدان میں بید مجنوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تحریک انصاف سے نکلے، اس سے اب ٹکرا رہے ہیں۔ ان کا تازہ بیان آیا مجھے تو پتہ ہی نہیں لیول پلئنگ فیلڈ کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے جو کہا سچ کہا ،کل وہ نسوار کو جادو کا تریاق قرار دینگے تو بھی لوگ مان جائیں گے۔ ایک بڑے لیگی لیڈر آصف کرمانی نے کہا ہے کہ الزامات کی سیاست کا دور گزر گیا۔ عوام کارکردگی پر ووٹ دیں گے، پہلے بلاول پی ٹی آئی کو ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ کرمانی صاحب نے بھی درست کہا مگر اب دانیال عزیز اپنے ساتھی وزیر احسن اقبال کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اس بیان بازی کو ٹکٹ کا قضیہ قرار دیتے ہیں۔ ویسے سیاست میں اب جنت کے ٹکٹ بھی تقسیم ہوتے ہیں۔
پاکستانی چاول کی دنیا میں مانگ ہے، صدر علوی کا بریانی فیسٹیول سے خطاب۔
بلاشبہ پاکستانی چاول پاکستانی آموں کی طرح دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ چاول کی عالمی سطح پر کتنی مارکیٹنگ ہوتی ہے؟ ایک سفیر شاید مالٹا گئے۔ چاول کی تھیلی ان کے ساتھ تھی۔ وہاں ان لوگوں تک پہنچائی جو امپورٹ ایکسپورٹ کے ذمہ دار تھے۔ یہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ بھارت پاکستان کے چاول پر اپنا ٹریڈ مارک لگا کر ایکسپورٹ کرتا ہے۔ پاکستان میں دبئی کے راستے سے آنے والی بھارتی فلمیں بھارتی نہیں رہتیں۔ اسی طرح دبئی جانے والے چاول پاکستانی نہیں رہتے۔ بھارتی بیوپاری وہاں منگوا کر اپنا ٹھپہ لگا کر ٹریڈ مارک اور برانڈ بنا لیتے ہیں۔ صدر علوی نے چاول کی مانگ کی بات برپانی فیسٹیول میں کی۔ بریانی سن کر کچھ لوگوں کی تو رال ٹپکنے لگتی ہے۔ صدر صاحب بریانی میلے کے مہمانِ خصوصی تھے۔ قسم قسم کی بریانی کی بھاپ اور خوشبوئیں کیا سماں پیدا کئے ہونگی۔ بریانی کی بہت سی اقسام ہیں۔ عجیب سے نام بھی ہیں۔ جس برپانی کو ایک شہر میں کوئی نہیں پوچھتا دوسرے شہر میں اس شہر کے نام سے فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک جگہ لکھا دیکھا ’’اچانک بریانی‘‘ اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے۔ اچانک پکا لی، اچانک دم اٹھایا یا اچانک اس کے مالک نے یہ بزنس شروع کر دیا۔
سگریٹ سے ہونیوالی آلودگی اربوں کے نقصان کا سبب۔ ایک تحقیق۔
سگریٹ نوشی کو موت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف پینے والے کے لئے مضر ہے بلکہ جو نہیں پیتے وہ بھی اس کے مضر اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ آلودگی سے اربوں کا نقصان واقعی درست بات ہے۔ آلودگی انسانوں کو موت کے قریب بھی کر دیتی ہے۔ تھوڑے سے بزرگ آفس بوائے کی موجودگی میں موت کو قریب سے دیکھنے کی بات ہو رہی تھی۔ ان سے پوچھ لیا تو نے بھی کبھی موت کو دیکھا ہے تو ان کا جواب تھا۔ جب مجھے باس کام کا کہتا ہے تو مجھے موت ہی نظر آتی ہے۔ ایک روز ان کو رس ملائی لانے بھیجا تو ایک ہاتھ میں رس دوسرے میں ملائی کی شاپری تھی۔
ٹی وی پر ایک طرف سگریٹ کے اشتہار چل رہے ہوتے ہیں دوسری طرف اسے مضر صحت بھی قرار دیا جا رہا ہوتا ہے۔ عجیب ہے، بھئی غضب ہیبھئی، سگریٹ نوشی مضر بھی ہے خرچہ بھی۔ ایک دوست دوسرے کو ایک بار پھر تمباکو نوشی چھوڑنے کی نصیحت کر رہا تھا۔بتا رہا تھا تم دس سال سے سگریٹ پی رہے ہو۔ گویا نوٹ پھونک رہے ہو۔ روزانہ کی ڈبیوں کا حساب لگایا۔ دس سال حساب کتاب کے مطابق تین لاکھ روپے بن گئے جو دھویں میں مرغولے بنا دئیے تھے۔ ’’تم تین لاکھ کسی کام میں لا سکتے تھے۔‘‘ ناصح نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔ یار مجھے 50 ہزار کی ضرورت ہے ادھار دیدو۔‘‘ ’’مصنوح‘‘ نے ناصح سے درخواست کی۔ میرے پاس نہیں ہیں، نصیحت کرنے والے نے کہا۔ ’’یار ان تین لاکھ میں سے دیدو جو تم نے سگریٹ نہ پی کر بچائے ہیں۔‘‘ جواب درست ہے!
دلہن کی فرمائش پر دلہا ہیلی کاپٹر میں بارات لے کر پہنچ گیا۔
صوابی سے بارات پشاور جانی تھی۔ دلہن کی فرمائش آ گئی کہ میاں! لے جانا ہے تو ہیلی میں آئیو، فرمائش بھی دلہے کی حیثیت دیکھ کر کی ہو گی۔ کچھ لوگ عشق و محبت میں تارے توڑ کر لانے کے دعوے کر دیتے ہیں۔ دلہن ایسی فرمائش نہیں کرتی جو قابل عمل نہ ہو سوائے اس کے جس نے دلہا میاں سے جان چھڑانی ہو۔ پشاور کی دلہن کو علم تھاکہ دلہا یہ معمولی سی فرمائش پوری کر سکتا ہے۔
آج کل شادی ہالوں میں شادیوں کا رواج زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ حکومت وقتاً فوقتاً پابندیاں لگاتی رہتی ہے۔ کبھی ون ڈش کی پابندی لگا دی، کبھی ٹائم کی پابندی عاید کر دی۔ ایسی پابندیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں مگر ان پر عمل خودبخود بے عملی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وقت کی پابندی نہ ہو تو شادی ہال والوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ ون ڈش کی پابندی پر بکنگ کرانے والے پکڑے جاتے ہیں۔ دلہے کو تو کچھ نہیں کہا جاتا۔ اس کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے شادی ہال والے اس کا بھی کماحقہ بندوبست کر کے رکھتے ہیں۔ اپنی طرف سے دلہے کا ابا تیار رکھا جاتا ہے۔ چھاپا پڑے تو اپنا بندہ دلہے کے والد کے طور پر چھاپہ برداروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ راستے میں اور جہاں لے جاتا ہے چھوہارے کھا رہا ہوتا ہے۔ جِسے چائے پانی کی ادائیگی کے بعد شادی ہال واپس جانے کی اجازت دیدی جاتی ہے۔ ایک پولیس والے نے شادی ہال کے مینجر کو فون کر کے ایک ملازم رکھنے کی سفارش کی۔ مینجر نے پوچھا کیا کام کر سکتا ہے۔ پولیس والے نے کہا بس اْسے ابا بھرتی کر لیں۔