یوں خاموش ہیں جیسے کوئی شکائیت نہیں انہیں

قارئین دومیل ضلح اٹک کا مشہور ومعروف قصبہ ہے راولپنڈی اسلام آباد سے 90کلو میٹر کوہاٹ راولپنڈی روڈ پر واقع ہے اس کے اطراف بزرگان دین کے مزار ہیں حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مالک حقیقی نے اس کی مصوری اس انداز سے کی جس کو دیکھ کر دل عشق عشق کر اٹھتا ہے دومیل کے سرسبزوشاداب کھیت اور خوبصورت میدان اس کی دل کشی کو بڑھا رہے ہیں اس کی اراضی چکنی میرا اور ریتلی۔ ہے دومیل کے باسی بہت مہمان نواز ہیں اس کے کئی افراد پاک فوج نیوی ائیر فورس اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں شہیدوں اور غازیوں کی یہ دھرتی مسائل کی آماجگاہ بنی دکھائی دے رہی ہے اور صحت تعلیم اور سفر ی سہولتیں ان کے لئے شجرہ ممنوعہ بنے عوامی نمائندوں کی بے اعتنائی پر ماتم کناں ہیں 120کنال پر محیط گورنمنٹ ہائی سکول دومیل عوامی تقاضے کے باوجود کالج کادرجہ نہ پا سکا جو حق تلفی اور ناانصافی ہے میرے گاﺅں میرے شہر کے بچے علمی پیاس بجھانے میں مشکلات سے دوچار ہیں اللہ اس شخص کے درجات بلند فرمائے جس نے کروڑوں کی اراضی محکمہ تعلیم کو وقف کی لیکن ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان نے دومیل کے عوام کے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی جب کی ووٹ لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اسی طرح گرلز سکول کو بھی ہائر سیکنڈری کا درجہ نہ دیا گیا بچوں اور بچیوں کے علمی دروازے بند رکھے گئے کیا اس عوام کے طلبہ وطالبات کا تعلیم کے زیور سے بہرہ ور ہونا ان کا حق نہیں ووٹوں سے منتخب ہونے والوں نے عوامی حقوق سے چشم پوشی کی اور دومیل کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولتوں کا بھی فقدان ہے 40کنال کے وسیع وعریض رورل ہیلتھ سنٹر دومیل کو جدید سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ نہ کیا جا سکا مستقل سٹاف اور ادویات کی فراہمی کی ضرورت ہے ایکسرے ڈینٹل یونٹ زچہ بچہ کی سہولت کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے علاقے کا مرکز ی ہسپتال کو جدید طبی سہولتیں دے کر علاج معالجہ میں حائل تکلیف کو دور کیا جائے دومیل اہم تجارتی مرکز ہے یہاں منڈی مویشیاں سے گورنمنٹ کو سالانہ کروڑوں کی آمدن ہوتی ہے اس منڈی ہر پنجاب بھر اور خیبر پختونخوا سے بیوپاری اور دوسرے لوگ آتے ہیں لیکن صد افسوس صد افسوس دومیل پنڈسلطانی سڑک موہنجوڈارو کا روپ دھارے اپنی لاوارثی پر ماتم کناں دکھائی دیتی ہے بڑے بڑے گڑھے اس کی زبوں حالی کا منظر پیش کر رہے ہیں سینکڑوں گاڑیاں اس سڑک سے گزرتی ہیں مسافر سفر میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں بارش کے دنوں میں یہ تالاب کا روپ دھار لیتی ہے اور آنے جانے والوں کا جو حشر نشر ہوتا ہے اس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے یہ روڈ انتہائی اہم ہے ہزاروں لوگ منڈی پر اپنے مویشی لاتے ہیں جنڈ تحصیل مقام سے ضلح مقام تک آمدورفت اسی روڈ سے ہوتی ہے پنڈسلطانی براستہ دومیل تا ناڑہ موڑ یہ سڑک منتخب عوامی نمائندوں کی توجہ کی منتظر ہے برسوں سے یہ ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑک جہاں۔ اپنی لاوارثی پر نوحہ خواں ہے وہاں عوامی نمائندوں کی بے حسی پر بھی ماتم کرتی دکھائی دیتی ہے کھڑپینچ اور سر پینچ پوائنٹ سکورنگ پرمیں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے دومیل میں صنعتی یونٹ بھی ہے اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے یہ سڑک اہم ہے لیکن اس کی زبوں حالی کے زمہ دار عوامی نمائندے ہیں جو الیکشن کے دنوں میں خوشی غمی کے موقع پر دکھائی دیتے ہیں ویسے نظر سے دور بہت دور ہیں اسی سڑک پر واقع دومیل نالہ کس پر کازوے خطر ناک شکل اختیار کر چکا ہے طغیانی کی صورت میں پانی اس کے اوپر سے گزرتا ہے اور آمدورفت کا سلسلہ کئی کئی گھنٹے معطل رہتا ہے یہ کازوے ایک دو جانیں بھی کے چکا ہے ضرورت امر کی ہے کہ اس کی مرمت اور اس کو پل کی شکل دی جائے اور اس پر حفاظتی جنگلے لگائے جائیں تاکہ کوئی جان لیوا حا دثہ پیش نہ آئے شفائ خانہ حیوانات دومیل کی حالت زار کا یہ عالم ہے کہ اس کی عمارت اور چاردیواری کو تو نیا رنگ روپ دے دیا گیا لیکن ادویات کا فقدان اور عملے کی من مانیوں سے عوام کو جانوروں کے علاج معالجہ میں پریشانی ہے اپنی جیب سے دوائیاں لینا ان کا مقدر بنا دیا گیا ہے لمپی اسکن بیماری سے متعدد جانور مرتے رہے ڈنگر ڈاکٹر پیسوں کی ویکسین لگا کر مال بناتا رہا اس صورت حال پر کوئی قلم زاریاں نہ کرے تو اور کیا کرے ریلوے اسٹیشن دومیل کی کروڑوں روپے کی اراضی بے کار پڑی ہے جو محکمانہ بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے دومیل کے مقامی نمائندے نجانے مصلحت پسندی کا شکار ہیں عوامی مسائل پر ان کی خاموشی پر یہ شعر صادق آتا ہے
کیا کیا گلے نہیں ہیں مگرانکےروبرو
یوں خاموش ہیں جیسے کوئی شکائیت نہیں انہیں
بابا پیر کرم شاہ پیر غازی امام بابا پیر اصحاب بابا شہیدا زیارت بی بی صاحبہ اور دیگر بزرگوں کی بسی مسائل زدہ کیوں دومیل قومی تہوار یوم عاشور شب برات عید میلادالنبی اور عیدین کے تہوار مذہبی جوش وجذبہ اور عقیدت واحترام سے منائے جاتے ہیں اور علاو¿ہ بھر کے لوگ ان میں شرکت کرتے ہیں لیکن روٹی پھوٹی سڑک ان کا استقبال کرتی ہے جو عوامی نمائندوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے درجنوں مساجد ومدارس والا قصبہ جو شہر کا روپ دھارا جا رہا ہے اس وقت مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ آج کا کالم اپنے شہر کے باسیوں کے نام آج کی قلمی زکوت اپنے باسیوں کے نام یہ قلمی جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دومیل کے عوام کو اپنے حقوق نہیں ملتے یہ ہمارا فرض ہے یہ ہماری زمہ داری ہے اور اس کی انجام دہی میں بے اعتنائی ہم نہیں کر سکتے صحافی کا کام مکرو فریب میں سچائی کا آفتاب روشن کرنا ہے جو ہم نے کر دیا ہے عوامی نمائندے اپنا فرض نبھائیں۔