وسائل میں توازن کا معاملہ

جب سے دنیا آباد ہوئی ہے ہر دور میں اس کے کچھ تقاضے رہے ہیں ایک زمانہ ایسا تھا کہ دنیا میں آبادی کم اور وسائل زیادہ تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور فصلوں اور دیگر اجناس کی پیداوار کی جگہوں پر بھی بستیاں آباد ہونے لگیں اور یہی وقت تھا جب آبادی اور وسائل کے توازن میں فرق آنے لگا ۔ ہم پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آبادی کے ہمارے مسائل دوسری دنیا سے اس لیے بھی مختلف ہیں کیونکہ ہمارا شمار ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ملک کی بڑی اکثریت کے پاس محدود وسائل ہیں ۔ لوگوں کے پاس روزگار کے وسائل بھی کم ہیں اور ملک میں کاروبار کے نا مساعد حالات نے دیہاڑی دار افراد کے لیے کمائی کے امکانات کو اور بھی کم کر دیا ہے۔ایسے حالات میں ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نہ صرف انفرادی بلکہ ملکی سطع پر وسائل پر بوجھ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔
ایسے وقت میں سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ سازی کو اپنا کر بچوں کی تعداد اور وسائل میں توازن قائم کیا جائے ۔ خاندان کی منصوبہ سازی کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بچوں کو بہتر دیکھ بھال میسر ہو،ان بچپن خوش گوار ا گزرے انہیں اچھی تعلیم کے مواقع میسئر ہوں اور انہیں ایک خوشحال مستقبل کے لیے تیار کیا جائے اور ایسا صرف بچوں کی تعدا د اور وسائل میں توازن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ منصوبہ سازی سے نہ صرف بچوں کے لیے اچھا مستقبل بنانے میں مدد ملتی ہے بلکہ ماں کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ بعض اوقات جہاں ماں کی صحت خراب ہو جاتی ہے وہیں وہ اپنے بچوں کو مناسب توجہ بھی نہیں دے پاتی اور نہ ہی ان کی تربیت کے لیے مناسب وقت نکال سکتی ہے۔ اس ایشو پر گھر کے بڑے بزرگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کی رہنمائی کریں کہ بچوں اور وسائل میں توازن سے نہ صرف گھر بھر خوشحال ہو گا بلکہ وہ اپنی زندگی بھی بہتر طور پر گزار پائیں گے اور کوئی ایسا کام نہیں ہے جس پر وہ شرمندگی محسوس کریں کیونکہ مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس مناسب وسائل موجود ہوں گے۔
پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کے پیش ِ نظر خاندانی منصوبہ سازی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ، کیونکہ تین صوبوں میں آنے والے اس سیلاب سے نہ صرف انفراسٹرکچر ب±ری طرح متاثر ہو ا ہے بلکہ فصلوں اور املاک کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس سے بحالی کے لیے کثیر رقم در کار ہو گی۔ انفرادی اور قومی سطع پر خاندانی منصوبہ سازی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔
سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد میں حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق متاثرہ خواتین میں سے لگ بھگ 6 لاکھ 50 ہزار خواتین امید سے ہیں۔ ایسی حالت میں سیلاب کی تباہ کاری اضافی پریشانی لائی ہے۔ ایسے حالات میں محفوظ زچگی کے لیے غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے ۔ ماں اور نوزائیدہ بچوں کے صحت کو جہاںمختلف بیماریوں کا سامنا ہے وہیں غذائی قلت کا شکاریہ زندگیاں خطرے کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ آج منصوبہ سازی کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے تاکہ ہم سیلاب سے متاثرہ ہم وطنوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ ملک کی غذائی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکیں اور پاکستان کو ایک ایسا ملک بنا سکیں جہاں سب کو بنیادی ضروریات میسر ہوں اور اس قوم کے بچوں کی آنکھیں بہتر کل کا خواب دیکھیں اور یہ خاندان ، وسائل میں توازن سے ہی ممکن ہے۔