بعد از خدا بذرگ توئی قصہ مختصر
1

”کائنات کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین تک پہنچنے کےلئے رحمت عالم کی پےروی ضروری ہے“ میں اس فلاسفر کو عظیم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس کے ہونٹوں اور قلم سے آقائے نامدار کی تعریف اور اعتراف کے جملہ موتی بن کر نکلا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں ۔جارج برنارڈ شاءڈرامہ نگار ہی نہیں مجھے تو آقاکریم کا سیرت نگار نظر آیا ہے وہ بر ملا اعتراف کرنا ہے ” میں نے محمد کے مذہب کی حیران استقامت کی بنا ہر ہمےشہ تعظیم کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جس میں گہرائی ہے اور یہی چیز لوگوں کےلئے دلکش ثابت ہوتی ہے ،میں اس مذہب کے بارے میں پےش گوئی کرنا چاہتا ہوں کہ آج جسے یورپ کہتے ہیں وہاں پہ مانا جانے لگے گا۔
فرانسیسی فلاسفر، الغانسی وے لا مرٹن نے میرے اور ہم سب کے بلکہ پوری کائنات کے محسن اور وجہ تخلیق کائنات کے بارے میں کیا کہا ہے ” اگر غیر معمولی طور پر جینئس ہونے کا فےصلہ ان تین چیزوں پر کیا جائے ”عظیم مقصد، انتہائی محدود ذرائع اور بے مثال نتیجہ“ تو کوئی شخص محمد کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اولوبسمارک ان الفاظ کی مالا پرو کر آقائے نامدار تاجدار حرم کے باے میں کیا کہتاہے” مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے ساتھیوں میں شامل نہیں تھا۔ اے محمد انسانیت نے ایک ہی بار کی چنی ہوئی شخصیت کو دےکھا پھر کبھی نہیں دےکھے گی۔ میں انتہائی خشوع سے آپ کے آگے جھکتا ہوں۔ ختم نبوت کا اظہار ، ابلاغ ، اعلان اور اعتراف دےکھئے۔ رومن کنگ ہرکولیس نے مےرے آقا کو کس طرح اور کن شاندار الفاظ میں خراج تحسین پےش کیا۔ ”اگر میں حضرت محمد کے زمانے میں ہوتا تو میں ان کے قدموں میں بےٹھ کر آپ کے پاو¿ں دھوتا“ سرتھامس کا رلائل نے رحمة للعالمین کے نام کی کس طرح عقیدت اور احترام کےساتھ تسبیح پڑھی ہے۔”لفظ محمد “ فطرت کی آواز کا نام ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے وہ سب ہوا ہے دھواں....ایک اور مفکر ہینری بینڈ مین نے پوری کائنات کے نبی برحق کی عظیم ذات کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے”محمد اےسے لیڈر تھے کہ جن کے نزدیک ان کا اور ایک عام آدمی کا سٹیٹس ایک تھا انہوں نے کبھی خود اپنی ذات کو مالی مفاد سے نہیں نوازا، یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کا تب بھی ساتھ دیا کہ جب محمد غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور تب بھی ان کے اعتماد کا پیمانہ وہی تھا کہ جب آپ اعظیم سلطنت کے شہنشاہ تھے“
روسی شہرہ آفاق ناول نگار کہانی نویس اور فلاسفر لیوٹالسٹائی نے ان الفاظ میں سرکار کل عالم کے بارے میں لکھا اب پوری دنیا میں صرف محمد کے قانون کی حکمرانی ہو گی“ جبکہ سرباسورتھ سمتھ نے پوری شانِ رسالت بیان فرمائی ” کائنات میں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے منصفانہ طور پر ایمانداری سے حکومت کی ہے ، تو وہ صرف محمد کی ذات عظمیٰ ہے“ جرمنی کے اےڈوولف ہٹلر نے ان الفاظ میں سرکار کریم کی ذات با برکات کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھ ”صرف ایک ہی مذہب ہے جس کی میں عزت کرتا ہوں اور وہ اسلام ہے صرف ایک ہی نبی ہے جس کی شان کا میںقائل ہوں اور وہ محمد ہیں۔فرانسیسی ہیرو نپولین بونا پارٹ نے اس طرح سے اپنااعتراف کے سمندر کو کوزے میں بند کیا ”سب سے بہترین مذہب محمد بن عبداللہ کا ہے۔مائیکل ہارٹ کی مشہور زمانہ تصنیف اور تحقیق جس کا برادرم محمد عاصم بٹ نے ”سو عظیم آدمی“ کے نام سے ترجمہ کیا اور آج تک اس کتاب کی ڈیمانڈ ہے اور جس پبلشرنے شائع کی وہ کہتا ہے اس جہان اور اگلے جہاں میں اس ایک کارنامے کی کمائی کھا رہے اور کھاتے رہیں گے۔
جس ہستی کی تعریف خود خدا کرے کیا پوری کائنات مل کر بھی اس کی تعریف اور عظیم تخلیق کا احاطہ اور اعتراف ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ امت مسلمہ کا المیہ دیکھیں آپ کی شان میں گستاخی کے مرتکب راج پال کو غازی علم الدین شہیدؒ نے جہنم واصل کیا ہے۔اور اقبال نے بے اختیار کہا کہ” لوہاراں دا منڈا بازی لے گیا“اور اس بے بدل شاعر نے جب اس عظیم عاشقِ رسول کے جسد نورانی کو حوالہ لحد کیا تو کیا منظر دےکھا (یہ واقعہ بعد میں عرض کروں گا)۔ رہی بات موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں کی حالت زار کی تو بیہودہ، لغو بل منظور کروانے کےلئے سب کچھ داو¿ پر لگا سکتے ہیں اس سے اندازہ لگا لیں کہ انہیں کیا چیز عزیز ہے۔
سوشل میڈیا پر آج وہ لوگ بھی شانِ مصطفی اور میلاد پاک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے
پائے گئے ہیں جن کی پوری گفتگو میں ایک جملہ بھی صرف و نحو اور تلفط کے معیار پر پورا نہیں اترتا ۔اللہ کے بندو! اس بحث سے بالا تر ہو کر سوچئے کہ ہم کیا کہ رہے ہیں ؟ رائج سیاست کی دلدل میں دھنسے ہوئے لوگوں کا پروگرام ، جلسہ ، دےکھنے سننے کےلئے سب کچھ داو¿ پر لگا کر چلے جاتے ہیں اور جن( صاحب اسلام ) کی وجہ سے آج ہم دنیا کی بہتریں امت ہونے کا اعزاز رکھتے ہین ان کی شان میں کچھ اہتمام کرنے یا کچھ وقت دےنے کےلئے تیار نہیں۔آئیں دل کی اندھےر نگری کو درودِ پاک کی ابدی مشعل سے روشن کر یں اس خدائی وظیفے سے کس نے آپ کو روک رکھا ہے۔