انتظار،عقل کا تقاضا ہے

الےکشن کرانے مےں اےسا کون سا نسخہ کےمےاءمضمر ہے جس سے قومی معاشی ابتری خوشحالی مےں بدل جائے گی۔گذشتہ ستر سالہ تارےخ مےں بہت سے انتخابات ہوئے ہےں ،ان مےں کسی کے بعد بھی دودھ اور شہد کی نہرےں کسی نے بہتے ہوئے نہےں دےکھےں ۔بس جو کچھ بہتر نظر آتا ہے وہ دہائےوں سے جاری تدرےجی عمل کا نتےجہ ہے ،کوئی پےمانہ ےا کسوٹی دےکھ لےں کہےں کسی انتخابات کے بعد سرعت سے ترقی کی کارفرمائی موجود نہےں ہے ،پچاس سے ستر تک کا ذکر تو اب غےر متعلق سا لگتا ہے ،اب 47ءوالا ملک تو نہےں رہا ، اےک نتےجہ ضرور ہوا کہ اےک الےکشن کے بعد ملک کا جغرافےہ بدل گےا ،ستر کے بعد کے پاکستان مےں چھ سات سال ضرور اےسے آئے جن کے نقوش آج بھی ملک کی آئےنی ،قانونی اور ادارہ جاتی پر بہت ہی نماےاں ہےں ، کہےں دھاندلی کا الزام لگا ،کہےں آر ٹی اےس سسٹم کے بےٹھ جانے کی بات ہوئی ،اشاروں پر سےاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹنے کی کہانےاں منظر عام پر آتی رہےں تارےخ اب چھپے ہوئے سچ کو اب تک اگل رہی ہے، اےسے الےکشن ہوئے تھے جس کے بعد مارشل لگا تھا ،پھر 2018ءتک بہت سے الےکشن ہوئے ،ان گنت دستانےںبنےں ،چہرے بے نقاب ،ادارے رسوا،سےاست بے وقعت ہوئی مگر جو نہ ہو سکا ، وہ سےاسی اور معاشی اور سےاسی استحکام کو نہ ہونا تھا ،تو اس سے عام آدمی سمجھ سکتا ہے کہ الےکشن کو کوئی تعلق ان مسائل کے حل سے نہےں ہے جو اس ملک کی جڑ مےں بےماری پھےلانے کا کام کرتے ہےں ،2007سے 2018ءکے درمےان تےن الےکشن ہوئے،کےا بدلا؟اس مےں 2018ءمےں اےک پےج والے ’آپ جناب“چار سال تک سب کچھ کرنے کی طاقت کے حامل تھے ،اپوزےشن بے حال،اور احتساب کی چکی مےں گھن کے ساتھ پس رہی تھی ،کوئی سنجےدہ سےاسی چےلنج بھی نہےں تھا ،مگر جو اعدادوشمار سامنے آتے رہے وہ وےسے ہی تھے جےسے ماضی سے چلے آ ر ہے ہےں ،ملک کے قرضے ہمےشہ سے بڑھ رہے ہےں ،ےہ مسلہ نمبر اےک ہے ،ملکی اور غےر ملکی قرضے اس عرصے مےںدوگنے ہوگئے ،پہلے کم ازکم گرمی مےں گےس ملا کرتی تھی ،اس بار گرمےوں مےں بھی گےس کی بندش کا سامنا ہوتا رہا ،چند ماہ پہلے تک تو بجلی کی لوڈشےڈنگ ہو رہی تھی ،غرض کچھ بھی تو نہےں بدلا تھا ،اب بھی وےسے ہی ہے،2002تا2018ءتک ہر الےکشن کے بعد نےاءکےا ہوا؟ڈالر ستر سے پہلے دس بےس روپے کا تھا ،اب 225کا ہے ،سڑکےں گرم رہےں ،ملک کو ڈےفالٹ کی جانب دھکا مارنے کا روےہ جاری رہا تو ےہ جلد اڑھائی سو روپے کا ہوگا ،جو ہر روز ”نامعلوم “ وےب سائےٹس پر ملک مخالف مواد کو بنےاد بنا کر ٹوےٹس وغےرہ فرماتے ہےں ،60منٹ کی تقرےر مےں59منٹس معاشی کمزروی کے ذکر سے غم غلط کرتے ہےں ،تو اس کا بھی دباو آ رہا ہے ،سےاسی جماعتوں کی اپروچ مےں معاشی مسائل کے حل کے حوالے سے کےا فرق ہے؟ جو الےکشن کے بعد بہتری آ جائے گی ، وہی ڈاکٹر حفےظ شےخ اور شوکت ترےن دو مخالف سےاسی جماعتوں کے ادوار مےں وزےر خزانہ رہ چکے ہےں ،تو بنےادی فرق تو کوئی نہےں،برامدات بڑھانے کے بےانات دےنا ہوتے ہےں وہ سب دےتے ہےں،پےچھے سب کو پتہ ہے کہ اےسا کوئی فاضل مال موجود نہےں ،زمےن کے حقائق بتا رہے ہےں کہ بنےادی اےشوز جن مےںآمدن کے مقابلے مےں آخراجات کا ذےادہ ہوناسمےت اپنی جگہ پر موجود رہے ہےں اور ےہ مسائل کسی سرجےکل آپرےشن کے متقاضی ہےں اور اس کے لئے حالات کا مناسب ہونا بنےادی شرط ہے ، ،ان کاحل کسی نئے الےکشن سے نہےں ہو سکتا ،کمزور ملک کی کوئی پالےسی نہےں ہوتی،بس جان بچائے رکھنا ہی کامےابی ہوتی ہے ،مارچ مےں ستمبر اور اب دسمبر مےں مارچ کی تارےخ کی خواہش نما مہم چل رہی ہے ،مگر قرائن بتا رہے ہےں کہ اےسا اےڈوےنچر ہوتا نظر نہےں آ رہا،30جون تک کا عرصہ ملک کی معاشی بقا کے لئے بہت ہی نازک معاملہ ہے ،ےہ منڈھےر کے اوپر چلنے والی صورت حال ہے اور تےز ہوا ہے اور چلنے والے کے پاس تواز ن والی چھڑی بھی نہےں ہے ،اےسے مےں الےکشن نہےں ہوا کرتے،اےسے ماحول مےں جب آئی اےم اےف کا پرگورام اےک بار پھر ڈانوں ڈ ول ہو رہا ہے اور پاکستان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ اس پروگرام کے دائرے مےں رہا جائے کےونکہ اس وقت ےہ واحد راستہ بچا ہے جس کی وجہ سے ملک کے اےمرجنسی مفاد پورے ہو سکتے ہےں ،حال ہی مےن ملک کے اند پےٹرولےم مصنوعات کی قےمتوں کو برقرا رکھا گےا ہے ، اس کی وجہ بھی ےہی تھی کی آئی اےم اےف کو ملک کے مالی آخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے جو تشوےش ہے اس مےں تسلی دی جائے کہ ملک اپنی آمدن بڑھانے کے لئے بھی کوشاں ہے ،ڈےزل پر ترقےاتی لےوی کو بڑھاےا گےا ہے ، وزےر خزانہ اپنے اےک انٹروےو مےں کہہ چکے ہےں کہ ملک ڈےفالٹ نہےں کرئے گا تاہم انہوں نے اعتراف کےا کہ ابھی سات سے آٹھ ارب دالر اےسے ہےں جن کی ضرورت ہے ،اس تمام بحث سے ےہ سمجھنا مشکل نہےں ہے کہ ان حالات مےں نئے انتخابات تباہی کا پےش خےمہ ثابت ہوں گے اور جو اس کا مطالبہ کر رہے ہےں ان کو اپنی خواہش پر نظر ثانی کرنا چاہئے، مزید انتظار کرنا چاہئے۔