ٹی ٹی پی کی دھمکی ‘ حکومت اور عسکری قیادت کیلئے چیلنج

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو 2007ء میں تشکیل پائی تھی۔ ٹی ٹی پی کا مقصد صوبہ خیبر پختونخوا اوروفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ میں شرعی قانون قائم کرنا ہے اور اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے وہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف برسرپیکار ہے بلکہ ملک میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہوئی ہے۔ دسمبر 2009 ء میں اسکی طرف سے افغانستان کے علاقہ خوست میں امریکی فوجی اڈے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 7 امریکی شہری ہلاک ہوئے۔ اپریل 2010 ء میں امریکی قونصل خانے کے قریب خودکش حملہ کیا۔ اسکے علاوہ اس عسکریت پسند تنظیم نے 2014 ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونیوالے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اس حملے میں 132بچوں سمیت 149افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسکی بڑھتی کارروائیوں کے تناظر میں حکومت پاکستان نے اس عسکری تنظیم کو کالعدم قرار دیکر اس پر مکمل پابندی عائد کردی تھی لیکن اسکے باوجود پاکستان میں اسکی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ حتیٰ کہ پاکستانی سرحدپر فوجی چوکیوں پر بھی اسکے حملے جاری رہے۔
پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ بڑے طویل عرصے سے پیچیدہ تعلقات چلے آرہے ہیں کیونکہ اس عسکریت پسند گروپ کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور یہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے زیراثر ہیں۔بھارت ٹی ٹی پی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس حریت پسند گروپ کی جڑیں پاکستان میں مضبوط ہیں۔ پاکستان 14برس پر محیط اس جنگ کو ختم کرنا اور سرحدی علاقے میںپائیدار امن کی بحالی چاہتا ہے۔ اس کیلئے اس نے اس جنگجو گروپ سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں برسراقتدار آنیوالے افغان طالبان اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ثالث کا کردار کیا۔ کئی دور ہوئے لیکن بے نتیجہ رہے۔ جس کی وجہ تنظیم کی طرف سے وہ شرائط تھیں جنہیں پاکستان قبول نہیں کر سکتا تھا۔ ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان کی سرحد سے ملحق سابقہ قبائلی علاقوں (فاٹا)کی نیم خود مختار حیثیت بحال کرے۔ حکومت پاکستان نے وہاں گورننس کو بہتر بنانے کے غرض سے 2018ء میں فاٹاکو خیبر پختونخوا صوبے میں ضم کردیا تھا۔ اس علاقے کو ٹی ٹی پی اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہے اور اسے ان علاقوں سے سرحد کے دونوں جانب سے اپنی دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر پاکستان ٹی ٹی پی کا یہ مطالبہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے تو یہ ٹی ٹی پی کی بہت بڑی فتح سمجھی جائیگی اورپاکستان کی کمزور گورننس اور کمزور ریاستی فیصلے سے عسکریت پسند تنظیم کو اپنی طاقت بڑھانے اور اپنی من مانی کرنے کا بہترین موقع مل جائیگاجوریاست کے اندر ریاست بنانے کے مترادف ہوگا اور اس طرح دوسری علیحدگی پسند تنظیمیں بھی تقویت حاصل کر سکتی ہیں جو بلوچستان میں بھارت کی سرپرستی میں سرگرم ہیں۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں اس مقصد کیلئے حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین کئی بار جنگ بندی کے معاہدے بھی طے پائے ، لیکن اسکی جانب سے ہمیشہ ان معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ اب اس دہشت گرد گروپ نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرتے ہوئے اپنے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ ٹی ٹی پی کی یہ دھمکی پاکستان کی رٹ کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان پہلے ہی ان دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔ انکی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہمارے سکیورٹی افسران اور جوانوں سمیت ہزاروں شہری اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس لئے اس دھمکی کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے۔ اگر اس گروپ کیخلاف سخت کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو اسکے حوصلے مزید بڑھیں گے اور اسے ہماری سرزمین پر کھل کھیلنے کا موقع ملے گا جس کا فائدہ افغانستان اور ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ اس وقت ہماری حکومت اور بالخصوص نئی عسکری قیادت کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔