میڈیا کسی کا غلام نہ بنے

اگر میڈیا نہ ہوتا تو دنیا کبھی حقائق تک پہنچ نہ پاتی۔ اقوام متحدہ میں کوئی اجلاس ہو یا جنگ عظیم کی تباہ کاریاں ہوں۔ سیلاب زلزلے آتش فشانی، دہشت گردی، قتل و غارت، پروپیگنڈے، سازشیں، گھاتیں، ملاقاتیں، کامیابیاں، ترقیاں، ایجادات، نوبل پرائزز، مسِ ورلڈ، مسِ یونیورس، دنیا کے خوبرو مرد، شادیاں، طلاقیں، سکینڈلز، کھیل، شوبز، علم و ادب، مقبولیت، ذلت رسوائی، جگ ہنسائی سبھی کچھ میڈیا کا مرہونِ منت ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین صدر، وزیراعظم، جرنیل، جج، چا نسلرز، بادشاہ ملکہ میڈیا کے بغیر محض زیرو ہے۔ اگر میڈیا یہ سب کچھ منظرِعام پر نہ لائے تو کسی کی کو ئی اہمیت یا طاقت نہیں ہے۔ یہ میڈیا پر منحصر ہے کہ وہ کسی کا پازیٹو امیج پیش کرتا ہے یا نیگیٹو امیج بناتا ہے۔ جب سے خود میڈیا کو اپنی اس طاقت کا اندازہ ہوا ہے تب سے میڈیا ٹریک سے اُتر گیا ہے۔ چار دہاہیوں سے میڈیا کو مالدار اور طاقتور لوگ اپنے تا بع کرنے کی کوشش میں لگے ہو ئے تھے اور اب یہ صورت ہے کہ میڈیا مکمل طور پر طاقتور لوگوں کا غلام بن چکا ہے۔ میڈیا ریاست کا سب سے طاقتور ستون اس لیے ہے کہ وہ جو کچھ بتا تا ہے، دنیا اُسی بیانیے کے پیچھے چلتی ہے۔ میڈیا جو دکھاتاہے، لوگ اُسی کی نظر سے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ رائے عامہ بدلنے اور صورتحال میں تبدیلی پیدا کرنے، کھرا کھوٹا اور سیاہ کو سفید دکھانا میڈیا کا ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی بدترین شیطان کو فرشتہ بنا کرپیش کریں تو لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ میڈیا کا اصل کام تو حقا ئق پیش کرنا تھا۔ صحافی سچ کو سامنے لاتے تھے اور گناہ یا کرپشن سے پردے اٹھاتے تھے لیکن جب یہ چلن عام ہوا تو سب سے زیادہ پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے صحافیوں کو اپنا آلہء کار بنایا۔ اُن کے ضمیر اور قلم خریدے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ صحافی اوردانشور کی عزت تھی۔ یہ لوگ سچ کے خوگر، حقا ئق پسند، انا پرست اور باریک بین تھے۔ حکمران اندر سے خوفزدہ رہتے تھے کہ صحافی اُن کا کچا چھٹا نہ کُھول دیں۔ کہیں اُن سے بھرے مجمعے میں سخت سوال نہ پو چھ لیں۔ اُنکے راز افشا نہ کر دیں۔ اُن کی کسی بد اعمالی، بد عنوانی، بد اخلاقی کا پُول نہ کھول دیں۔ ہماری صحافی برا دری میں تقریباّ سبھی لوگ سفید پوش یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور رزقِ حلال کھاتے تھے۔ صحافت ایک مشکل پیشہ ہے۔ اس میں صرف راستباز، ایماندار، جرئات مند اور حقا ئق کی پگڈنڈیوں پر چلنے والے ہی آتے تھے۔ صحا فت کے تمام راستے کھٹن تھے۔ اس میں محنتی اور بہادر لوگ ہی چلتے تھے۔ یہ واحد پیشہ تھا جس میں کام زیادہ اور معاوضہ کم ملتا تھا لیکن پھر تیس چالیس سال پہلے حکمرانوں نے صحافیوں کو دانہ ڈالنا شروع کیا۔ اپنے معمولی کام کی زیادہ تشہیر اور انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کیا۔ صحا فیوں کی زندگیوں میں تغیر آیا۔ پریس کلب معرض وجود میں آنے سے صحافی برا دری کو طا قت اور گھر ملے۔ ضمیر اور قلم کے سودے ہوئے۔ سینکڑوں صحافیوں میں سے چند درجن بکائو صحافی بنے۔ سیاست کے ایوانوں کی دیکھا دیکھی دیگر ستونوں نے بھی صحافت میں جو بِکتا تھا، اُسے خرید لیا ، بس پھر کیا تھا۔ اپنی کرپشن چھپانے کے لیے صحافت میں اتوار بازار لگ گیا۔ آج یہ صورت ہو گئی ہے کہ سچ کے نام پر کالک پھیر دی گئی ہے۔ اکثر صحافیوں نے حالات سے مجبور ہو کر یا اپنے معاشی اور معاشرتی حالات بہتر بنانے کے لیے سیاہ سفید کی تمیز ختم کر دی ہے۔ ہر ادارے، ہر سیاستدان، ہر مفاد پرست، ہر طاقتور نے صحافیوں کو خرید لیا ہے۔ آج اکثر صحا فیوں کے حالات دیکھیں کہ جنھوں نے کبھی لالو کھیت نہیں دیکھا تھا اپنی کسی محبوبہ کو مو تیے چنبیلی کا پھول نہیں دے سکے تھے۔ وہ جمِ خانے آ کر چا ئے پیتے ہیں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں لنچ ڈنر کرتے ہیں۔ جنھوں نے ڈھنگ سے لاہور نہیں دیکھا تھا۔ آج وہ امریکہ انگلینڈ فرانس، سوئٹرز لینڈ جاتے ہیں۔ دو کنال سے دس کنال تک گھروں اور فارم ہائو سز میں رہتے ہیں۔ جن کے پاس چھکڑا یا چنگ چی نہیں تھی۔ آج خیر سے گھر میں چار چار گاڑیاں کھڑی ہیں۔ یہی کل تک تین مرلے کے ایک پورشن کا کرایہ دینے کے لیے مالک مکان سے مُہلتیں مانگتے تھے۔آج ان کے بچے انگلش میڈیم سکولوں اور باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔
صحافیوں کو پانچ طبقات میں بدلنے والے جہاں طا قتور لوگ ہوتے ہیں وہاں خود صحافی کا ذہن، ضمیر، نصیب ہو تا ہے لیکن زیادہ تر صحافیوں میں تقسیم کی وجہ مقتدر طبقے کی مدا خلت ہو تی ہے۔ ایک اوسط درجے کی ذہانت والا ابن الوقت، مفاد پرست اور منافق صحافی مقتدر طبقے کا سب سے بڑا آلہء کار ہو تا ہے۔ صحا فیوں کے محض دس پندرہ سالوں میں یکلخت بدل جانے والے حالات عکاسی کر رہے ہیںکہ صحافت کی بنیادیں ہلِ گئی ہیں اور پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ صحافی کو غیر جانبدار ہو نا چا ہیے مگر آج ہر صحافی کسی نہ کسی پارٹی کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ خدا کے لیے اپنے مردہ ضمیروں کو بیدار کریں اور کسی کی لونڈی، باندی، نوکر یا غلام نہ بنیں۔ یہ کیسی عیاشی یا راج ہے جو کسی کی مرضی اور غلامی سے حاصل کیا جا رہا ہے؟