’’انسان ‘‘ سے انسانیت تک

ٹی وی ابھی نہیں آیا تھا رات پروگراموں کی جگہ کہانی سننے کا معمول تھا بہت چھوٹے تھے اس طرح کی کہانیاں اک سی چڑیا اک سی چڑا ، چڑیا چڑے کی کہانی جس میں دونوں مل کر کھچڑی پکاتے کوئی دانہ لاتا تو کوئی دال کوئی لکڑی اور کھچڑی پکتی۔چڑیا کسی بہانے چڑے کو بھیج دیتی ہے اور ساری کچھڑی پر خود ہاتھ صاف کر جاتی ہے پھر کیا خوب لڑائی ہوتی اور چڑیا کی درگت بنتی ۔ اس وقت سن کر صرف مزہ آتا لیکن مقصداب سمجھ آیا کہ چڑیا ایک چالاک بے وفا بیوی تھی۔روزانہ اسی طرح کے موضوعات پر کہانیاں سنتے اور دیر تک اس کے منظر میں کھوئے مزے لیتے رہتے ۔ کہانی سنانے والے کو کبھی کبھار کہانی نہ یاد ہوتی تو ویسے ہی مزہ پیدا کرنے کیلئے یوں بھی آغاز کرتا ’’ایک تھا با دشاہ تیرا میرا خدا بادشاہ بات ختم ‘‘کیونکہ کہانی کو بات بھی کہاجاتا تھا بچے اصرار کرتے کہ بات سنائو تو ’’رات گئی بات گئی‘‘ کہہ کر ٹر خانے کی کوشش کی جاتی مگر کہانی سنا کر ہی جان چھوٹتی۔
کہانی سنانے والے دو تین طرح کے تھے ایک والدین جو دودھ کا گلاس مکمل ختم کرنے کی شرط پر کہانی سناتے امی کے علاوہ دادا یا دادی اماں کی کہانیاں بھی مزہ تو دیتیں چونکہ ان کی کوشش نصیحت کے تڑکے کے ساتھ سچی کہانی ہوتی بلکہ ان کی نسبت وہ کہانیاں جو نوکر، نوکرانیاں ماسی، چاچا سناتے وہ بے حد مزے دار ہوتیں۔ کبھی کبھی خوب خوفزدہ کبھی پریشان تو کبھی ہنساہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیتیں۔جا دو گروں ، جنوں، پریوں، بادشاہوں، شہزادوں کی کہانیاں مثلاً شہزادے کو حکم ہوتا ہے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جائو گے وغیر ہ وغیرہ۔پھر کہانیوں کی وکھری قسم گرامر وغیرہ کی کتابوں میں پڑھنے اور یاد کرنے کو ملتیں۔ اُردو کہانیاں شروع میں تو کچھ مزہ دیتیں لیکن جب یاد کرنی پڑتیں تو مزہ کر کرا کر دیتیں۔ لیکن انگلش کہانیاں تھر سٹی کرو، گرڈی ڈاگ وغیرہ تو اس لیے بھی بری لگتی کہ رٹ کر یاد نہ کرنے پر ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ۔ یہ سارا دور ایک اچھے بھلے مانس شریف انسان نجم رضوی کی کتاب ’’ انسان‘‘ پڑھنے اور اس پر لکھنے پر یاد آگیا۔
کہانیوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی لطیفوں اور پہیلیوں کی محفل بھی جمتی تو کیوں نہ ایک لطیفہ ہی ہو جائے۔ ایک ہشیار چالاک خانصاحب اور سنجیدہ مخلص دوست مل کر کھانا کھانے بیٹھے کھانے میں گوشت تھا خانصاحب کو محسوس ہوا شائد بوٹیاں تھوڑی ہیں انہوں نے ساتھی سے پوچھا تمہارے والد کیسے فوت ہوئے؟ تاکہ باتوں میں لگایا جائے پھر کیا تھا انہوں نے تفصیل بتانا شروع کی میرے والد کو بخار ہوا ڈاکٹر کے پاس لیکر گئے انہوں نے چیک کیا اور دوائی لکھ دی اور ٹیسٹ لکھ دئیے۔ اتنی رقم ٹیسٹوں پر لگ گئی پھر بھی بخار نہ اُترا۔ کسی نے کسی حکیم کا بتایا ۔ انہوں نے بھی پلندہ دوائوں کا تھما دیا اور اپنی جیب گرم کی اور بس ہمیں شک پڑ گیا کہ جادو ٹونے کا اثر ہے۔ کئی بابوں، پیروں فقیروں کے پاس گھومتے رہے بخار تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا جوں جوں دوا کی وغیرہ وغیرہ فوت ہونے تک کی تفصیلات بتاتے بتاتے خانصاحب بوٹیوں کا صفایا کر رہے تھے کہ ان صاحب کو محسوس ہوا کہ میرے ساتھ ہا تھ ہو رہا ہے انہوں نے خانصاحب کو باتوں میں لگانے کیلئے پوچھا آپ کے والد کیسے فوت ہوئے۔ خانصاحب نے جواب دیا ’’ پیٹ میں درد ہوا مر گیا‘‘نجم رضوی کی کہانیاں اوپر بیان کر دہ دادی ، نانی ،امی ، ابو کی کہانیوں کی طرح سبق آموز ہیں اور مزے دار بھی ان میں اگرچہ وہ مزہ تو نہیں جو چاچے ماسی کی کہانیوں سے ملتا تھا لیکن سوچیں تو اپنے بزرگوں دادی وغیرہ کی کہانیاں آج بھی یاد ہیں اور قدم قدم پر رہنمائی کرتیں ہیں اب خانصاحب کی عملی زندگی کے اُتار چڑھائو میں وہی حالات پیش آتے ہیں تو ان کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے جبکہ چاچے ماسی کی کہانیںذہن سے ایسے اُتریں جیسے سنی ہی نہیں تھیں حالانکہ اس وقت بڑا مزہ دیتی تھیں لیکن وہ وقتی مزہ تھا۔
دراصل نجم رضوی صاحب ادب برائے ادب کے قائل نظر نہیں آتے ہیں امی ابو والی کہانیوں کی طرح سے ادب برائے زندگی کی وہ خوبصورت کتاب ہے جو ففتھ جنریشن وار کے اس عہد میں نظریاتی اساس پر اپنی اخلاقی عملی معاشرتی روایات و اقدر و کردار کے محافظ و مجاہد کے طور پر پیش کرتی ہے نجم رضوی صاحب مبلغ ہیں۔ سچائی ، دیانتداری ، رواداری کے وہ علمائے سو کی طرح سنوارے کے نام پر بگاڑ نہیں پیدا کرتے بلکہ بگاڑ پیش کر کے معاملات سنوارتے ہیں وہ خود لیکچر نہیں دیتے بلکہ پندو نصائخ کا کام ڈپٹی نذیر بن کر داروں سے اخذ کرواتے ہیں۔ نجم رضوی ایک ایسا ہی سماجی رہنما ہے جو حقوق العباد کا پرچار کرتا ہے اس کی کہانیاں اصلاح معاشرے میں اپنا بہت بڑاحصہ ڈال رہی ہیں یہ انہیں کاکمال ہے کہ محبت بھری رومانوی کہانی میں بھی چادر و چاردیواری کا تحفظ ملتا ہے علامتوں کا استعمال اس خوبصورت انداز سے کرتے ہیں کہ بعض اوقات پوری کی پوری کہانی علامت بن جاتی ہے منظر کشی کے لئے وہ اس لطیفہ کی طرح جو پٹھان اور اس کے ساتھی کا سنایا ’’پیٹ میں درد ہوا اور مر گیا‘‘ کہہ کر جان نہیں چھڑواتے بلکہ شروع سے آخر تک حالات و واقعات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں اور تحریر کی سادگی و سلاست اور تاثیر سے قاری میں ایسا تجسس پیدا کرتے ہیں کہ وہ کہانی ختم کر کے اگلی کہانی پڑھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کتاب نجم رضوی صاحب کی طرح خوبصورت ہے اصل کمال یہ ہے کہ ظاہر ہی نہیں باطن بھی خوبصورت ہے بلکہ دوسروں کے باطن کو بھی سنوارتی ہے یوں ان کی کتاب ’’انسان ‘‘ پوری انسانیت کا درس بن جاتی ہے۔
(الحمرا میں نجم رضوی کی کتاب ’’انسان‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھاگیا مضمون ہذاکا انداز، تحریر نجم رضوی صاحب والا ہے۔)