آہ !باغ بیرون ِموچی دروازہ

گزشتہ کالم کا اختتام برصغیر کی 20 ویں صدی کی ایک عہد ساز جلسہ گاہ باغ بیرون موچی دروازہ کے ذکر پر ہوا تھا۔ آئیے آج کی نشست میں اس جلسہ گاہ کے حوالے سے چند نہفتہ و شگفتہ یادوں کو تازہ کریں۔ یاد رہے کہ ایک دور میں یہ کہاوت زبان زد عام تھی کہ سیاسی تغیر و تبدل کے حوالے سے پاکستان کا دل پنجاب ہے، پنجاب کا دل لاہور ہے اور لاہور کا دل موچی دروازہ ہے۔موچی دروازہ لاہور کے 12 دروازوں میں سے تہذیبی، تاریخی، علمی ، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے ایک ایسا علاقہ ہے جہاں خالص لاہوری اقدار و روایات کی نشو ونما کا عمل صدیوں سے فروغ پذیر ہے۔پرانے لاہور میں موچی دروازہ کو و ہی مقام حاصل ہے جو انسانی وجود میں دل کو حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس علاقے نے لا تعداد عظیم اور تاریخ ساز شخصیات کو جنم دیا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام اسی علاقے میں بسر کیے۔ اردو زبان کے نامور شاعر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بھی اسی علاقہ کے گلی کوچوں میں پل بڑھ کرجوان ہوئے۔ شعر و ادب ، علم و ہنر اور سماج و سیاست کی دنیا کی کئی قد آور شخصیات اسی تاریخی علاقے کے تاریخی ماحول کی پروردہ ہیں۔ دروازوں کے اندر واقع لاہور کسی دور میں بنو عباس کے دور کے بغداد کی طرح عجیب رومانوی ، داستانوی اور طلسماتی روایات کا امین تھا۔ اگر پرانے لاہور کے بارہ دروازوں کے اندر واقع قدیمی شہر کو ایک شخصیت تصور کر لیا جائے تو یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ موچی دروازہ اس شخصیت کے خوبصورت اور حسین و جمیل سراپے میں ایک دلکش چہرے کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر آپ اندرون موچی دروازہ سے باہر نکلیں تو آپ کو بائیں ہاتھ بر صغیر پاک و ہند کی سب سے قدیم اور تاریخی جلسہ گاہ ’’باغ بیرون موچی دروازہ‘‘ دکھائی دے گی۔ تحریک آزادی کے دوران برصغیر کا کونسا نامور اور قد آور لیڈر تھا جس نے اس جلسہ گاہ کے سٹیج سے آزادی،بیداری اور انقلاب کا پیغام نہ دیا ہو۔ یہ جلسہ گاہ محض ایک جلسہ گاہ نہیں بلکہ آزادی، تبدیلی اور انقلاب کی ایک درسگاہ تھی۔ ابوالکلام آزاد ، پنڈت جواہر لعل نہرو، لالہ لاجپت رائے، نواب بہادریار جنگ،مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، علامہ مشرقی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ابوالحسنات،مولانا دائود غزنوی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب سید عطا اللہ شاہ بخاری نے قیام پاکستان سے قبل اس جلسہ گاہ میں متعدد مرتبہ زندہ دلان لاہور سے خطاب کیا۔ برصغیر میں یہ تصوراور تاثر عام تھا کہ جس تحریک کا آغاز موچی دروازہ سے ہوتا ہے وہ کامیابی و کامرانی سے لازماً ہم کنار ہوتی ہے۔اس تاثر اور تصور کی بنیاد پر ہر بڑا لیڈر باغ بیرون موچی دروازہ کی جلسہ گاہ میں حاضری اور حضوری کو اپنے لیے جہاں ایک جانب اعزاز و افتخار کا باعث سمجھتا تھا وہاں دوسری جانب اسے اپنے مشن کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت بھی گردانتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد وہ کونسا بڑا لیڈر تھا جس نے اس جلسہ گاہ کا رخ نہیں کیا ؟مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح،چوہدری محمد علی،مولانا عبدالستار خان نیازی، حسین شہید سہروردی،آغا شورش کاشمیری ، میاں ممتاز خان دولتانہ،ذوالفقار علی بھٹو، سید مودودی ، جنرل ایوب خان،نوابزادہ نصر اللہ خان، شیخ مجیب الرحمن ،خواجہ رفیق شہید، مولوی فرید شہید، حبیب جالب ، مولانا عبد الحمید خان بھاشانی، مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، نواب اکبر خان بگٹی، خان عبدالولی خان، پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف، محترمہ بینظیر بھٹو اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنے سیاسی و انتخابی پروگراموں کے لیے رائے عامہ ساز ی اور رابطہ عوام مہم کا آغاز یہیں سے کیا ۔ کھر صاحب نے اپنے رنگین و سنگین عہد گورنری میں جہاں بہت سے سیاسی رہنمائوں کو نظر بند و پابند کیا وہاں انہوں نے موچی دروازہ باغ کے سیاسی تشخص کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی ۔ پابندیوں ، نظر بندیوں ، جکڑ بندیوں کے اسی دور میں آغا شورش کاشمیریؒ نے موچی دروازے کا تشخص مجروح کرنے کی حکومتی کوشش کیخلاف بھرپور صدائے احتجاج بلند کی ۔ پابندیوں کے باوجود انہوں نے موچی دروازہ میں جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جلسے کے انعقاد کا یہ اعلان کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود کھر کو یہ چیلنج دیا کہ وہ موچی دروازہ باغ میں جلسے کا انعقاد کرینگے۔ انہوں نے بحیثیت گورنر دھمکی دی کہ’ اگر آغا شورش کاشمیری نے موچی دروازہ میں جلسہ کی کوشش کی تو سن لیں کہ حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے سے دریغ نہیں کرے گی‘۔ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تو آغا صاحب نے کھر صاحب کی دھمکی کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ’’کھر صاحب! آغا شورش کاشمیری نو بہار ایکٹریس کا دوپٹہ نہیں ہے کہ جس پر کوئی رنگ رنگیلا اور چھیل چھبیلا گورنر جب چاہے ہاتھ ڈال سکے، موچی دروازہ میں جلسہ ہو گا اور ضرور ہو گا‘‘… آخر ایسا ہی ہوا۔ جلسہ کے انعقاد کی شب آئی تمام تر حفاظتی اور حراستی انتظامات کے باوجود زندہ دلانِ لاہور جلوسوںاور ٹولیوں کی شکل میں اندرون شہر کی پیچ دار گلیوں میں سے ہوتے ہوئے پولیس کے حفاظتی دستے کو چکمہ اور غچہ دیکرباغ بیرون موچی دروازہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ آسماں کے ستاروں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ جلسہ ہوا اور کامیاب ہوا ۔1974ء میں خوف و ہراس کے اسی ماحول میں متحدہ حزب اختلاف نے بھی یہاں ایک جلسہ کیا۔ دفعہ 144بدستور برقرار تھی۔ نواب زادہ نصرا للہ خان اور پیر پگا رو جلسہ گاہ میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ سٹیج پر پہنچے تو جلسہ گاہ میں ہزاروں سیاسی کارکنوں نے پرجوش نعروں اور پرتپاک جذبوں سے ان کا والہانہ استقبال کیا ۔ اس جلسہ سے مختلف مقررین نے خطاب کیا ۔ نوابزادہ مائیک پر آئے تو ابتدائی رسمی اور تعارفی جملے ادا کرنے کے بعد انہوں نے کہا ’’اعلیٰ سطحی حکمران شخصیات نے اس جلسہ میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے میرے ساتھ متعدد بارٹیلی فونی رابطے کئے، ان کا اصرار تھا کہ میں اس جلسہ میں شرکت نہ کروں ، میں نے ان کے نادر شاہی احکامات کو ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا‘:
یہ تو نے کیا کہا ناصح کہ نہ جا کوئے جاناں میں
ہمیں تو رہرووں کی ٹھوکریں کھانا، مگر جانا
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں حکمرانوں کو للکارتے ہوئے یہ شعر بھی پڑھا تھا:
اے اہل حشر! ہے کوئی نقادِ سوز دل
لایا ہوں داغ دل میں نمایاں کیے ہوئے
جب سے کھر دور میں اس جلسہ گاہ کو دیواروں اور خاردارتاروں میں چنا گیا، تب سے یہ جلسہ گاہ ویران، سنسان اور اُجاڑ ویرانے کی طرح اُداس و سوگوار ہے۔