پیپلز پارٹی کی جدوجہد اسکے 55ویں یوم تاسیس تک

30 نومبر 2022 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کی 55 ویں سالگرہ منائی گئی۔ 1967 میں اپنے قیام کے بعد سے پیپلز پارٹی ملک کی سب سے ممتاز اور منفرد سیاسی قوتوں میں سے ایک رہی ہے، جس نے بالترتیب 1973، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاقی حکومتیں تشکیل دیں لیکن یہ سفر کبھی بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ کیونکہ کئی سالوں میں پارٹی کو توڑنے اور اسے ختم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی مختصر عرصے میں مختلف سنگ میل عبور کرکے تاریخ رقم کی۔ اور آخر میں مقامی تعاون سے بین الاقوامی سازش کا شکار ہوئے۔ ان کی حکومت غیر آئینی مداخلت کے ذریعے گرائی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی شخصیت اور مضبوط انتظامی مہارتوں کے مالک تھے۔انہوں نے پیدائشی لیڈر ہونے کے ناطے اپنی فصاحت اور خطیبانہ صلاحیت کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ریلیوں کے لیے موبالائیز کیا۔
اس طرح پیپلز پارٹی نے ملکی محاذ پر ایک بڑی مرکزی سیاسی جماعت کے طور پر پاکستان کو عالمی منظر نامے پر بلند کرتے ہوئے اسلام آباد میں 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ اس کے بعد ملک کے نیوکلیئر پروگرام کا آغاز کیا۔ بھٹو کے دور میں متعدد کامیابیوں میں سے، زمین کی ملکیت، مزدوری، صنعتی/کارپوریٹ سیکٹر، بینکنگ، تعلیم، صحت اور قانون سے متعلق اصلاحات پارٹی کے سیاسی منشور اور پیشرفت کا سنگ میل بن گئیں۔ 1972 میں شملہ معاہدہ ، سوویت یونین کے ساتھ بہتر تعلقات اور چین کے ساتھ خصوصی تعلقات بھی ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر دور کی نمایاں جھلکیوں میں شامل تھے۔
لیکن عالمی رہنما کے طور پر بھٹو کا ابھرنا، اپنے وقت کی ناانصافیوں/ زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کچھ مشترکہ ایجنڈے پر اسلامی ممالک کو متحد کرنا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے برداشت نہ ہوا اور نتیجتاً ملک کا سیاسی نظام پٹڑی سے اتار کرمارشل لاء لگا دیاگیا اور ایک جابرانہ نظام کا آغاز ہوا جس میں شہری/آئینی حقوق معطل کر دیے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے ساتھ، پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور پارٹی کارکنوں کو انتہائی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ قیادت اور سیاسی کارکنوں کیخلاف ایکشن اور گرفتارییاں ہوئیں اور بالآخر 1984 میں بھٹو خاندان کو جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔شہری حقوق کی معطلی، آئین کی خلاف ورزی، میڈیا کی انتہائی سنسرشپ اور خوف اور اذیت کے وحشیانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو کنٹرول کرنے کے گیارہ سال کے جبر پر مجلس شوریٰ کہلانے والی سلیکٹڈ /کنٹرول کابینہ کی تشکیل کا خول چڑھایا گیا۔ جس کے بعد 1984 میں ڈکٹیٹر کی مدت صدارت کو مزید پانچ سال تک طول دینے کیلئے ایک جعلی ریفرنڈم ہوا۔
اسکے بعد 1985 میں دکھاوے کے اور کنٹرولڈ الیکشن ہوئے جن کا ایم آر ڈی نے باہمی بائیکاٹ کر دیا کیونکہ حقیقی جمہوریت کی جدوجہد جاری رہی۔ مستقل مزاجی ، استقامت اور آمریت کے خلاف جاری جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر10 اپریل 1986 کو بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی ہوئی۔ 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ پاکستانی سیاست کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ضیا دور کے خاتمے کے بعد نومبر 1988 میں عام انتخابات کا اعلان کیا گیا اور بینظیر بھٹو پاکستان کی کم عمر ترین وزیر اعظم اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔لیکن بدقسمتی سے، اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور اسے دو سال سے بھی کم عرصے میں تحلیل کر دیا گیا کیونکہ پس پردہ قوتوں نے صدر غلام اسحاق خان کے ذریعے مداخلت کی۔ میوزیکل چیئر اس وقت بھی جاری رہی جب 5 نومبر 1996 کو ان کے وزیر اعظم کے طور پر دوسرے دور میں اسمبلیاں ایک بار پھر تحلیل ہو گئیں، جو 3 سال سے کچھ زیادہ عرصے تک جاری رہیں۔ بے نظیر بِھٹو نے 12 اکتوبر 1999 کو ایک اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جلاوطنی میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور 2007 میں لندن میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔ تقریباً ایک دہائی کی جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آنے پر بے نظیر بھٹو کا زبردست استقبال کیا گیا۔ واپسی پر ایک سیاسی جلسے کے دوران قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد، بے نظیر بٹھو کو 27 دسمبر 2007 کو آئندہ انتخابات سے کچھ دیر قبل، لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی تاریخی تقریر کے بعد واپس آتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر کی آخری تقریر ایک ایسی تقریر تھی جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا یہ تقریر جیسے آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو کرشماتی شخصیت ، خوبصورتی اور فصاحت اپنے والد سے وراثت میں ملی۔انہوں نے خاص طور پر خواتین کو بااختیار بنانے، بین الاقوامی تعلقات اور تعلیم کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر وفاقی حکومت تشکیل دی جب آصف علی زرداری نے پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی دانشمندی اور فراصت نے اس قوم کو سنبھالا دیا جسے عسکریت پسندی، عدم استحکام اور تنہائی کا سامنا تھا۔ آصف زرداری نے ملکی استحکام پر توجہ دی اور ہمیشہ حزب اختلاف کیساتھ بات چیت کی حوصلہ افزائی کی۔ مفاہمت اور برداشت کے صولوں کو فروغ دیا۔ بلاول بھٹو نے رواں سال اپریل میں پاکستان کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن کر تاریخ رقم کی۔ تیسری نسل کے سیاست دان کی حیثیت سے انہیں بصیرت، سیاسی دانشمندی اور فصاحت و بلاغت اپنے والدین اور نانا سے وراثت میں ملی ہے۔ وراثت میں ملنے والی ان خصوصیات نے انہیں سیاسی میدان میں ایک اہم آغاز فراہم کیا ہے۔ Action Speak louder than words بلاول نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے سے نمٹنے میں اپنی صلاحیتوں کوبھر پورطریقے سے منوایا۔نوجوان اور پرجوش بلاول مستقبل کا وزیر اعظم بننے کے راستے پر ہے۔