نئے آرمی چیف کے دفاعی عزائم

نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر شاہ نے کہا ہے کہ ملکی مسلح افواج مادرِوطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ اگر دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی تو بھرپور جواب دینگے،یہ بات انہوں نے بھارتی جنتاکی طرف سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے حوالے سے حالیہ بیانات کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیرشاہ نے لائن آف کنٹرول کے رکھ چکری سیکٹر میں فرنٹ لائن دستوں کا دورہ کیا۔ کور کمانڈر اولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز نے ان کا استقبال کیا۔ جہاں آرمی چیف کو لائن آف کنٹرول کی تازہ ترین صورتحال اور فارمیشن کی آپریشنل تیاریوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔ نئے آرمی چیف نے افسران اور جوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے جوانوں کی بلند حوصلگی، پیشہ ورانہ قابلیت اور جنگی تیاریوں کو سراہا اور پاک فوج کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاک فوج ایٹمی صلاحیت سے لیس ہے اور اللہ کی استعانت اور عوامی حمایت سے کسی بھی بیرونی مہم جوئی اورجارحیت کا جواب بھرپور طاقت سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، بھارت کبھی بھی اپنے مذموم ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔ جنرل سید عاصم منیر شاہ نے بین الاقوامی دنیا کو انصاف یقینی بنانے پرزوربھی دیا اور کہا کہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دیئے جانے کا وعدہ پورا کیا جائے ۔
بلاشبہ پاکستانی عوام اپنی پاک دھرتی کی حفاظت اور سلامتی کیلئے یکجان و متحد ہیں او رہمیشہ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ پاک فوج نے بھی عوامی حمایت سے حالیہ بدترین سیلاب میںگھرے پاکستانیوں کوراشن و امدادی سامان پہنچانے میں اپنی بھرپور کوششیں صرف کردیں اور اپنے اعلیٰ افسران کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔ عوام فوج کی ان قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔دہشت گردی کیخلاف ایک دہائی سے جاری جنگ میں بھی پاکستانی عوام اور افواج پاکستان نے بے شمار جانی و مالی قربانیاں دی ہیں، نقصانات برداشت کئے ، اس جنگ میں دشمن نے ہمارے بچوں تک کو نہیں بخشا۔ مگر پاک فوج نے عوامی حمایت اور تائیدسے ہی دہشت گردی کے اس عفریت کا خاتمہ کیا ہے۔نئے آرمی چیف نے اپنی نئی منصبی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی لائن آف کنٹرول پر جاکر پوری قوم اور دنیا کے سامنے اپنے دفاعی ایجنڈے کا اظہار کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کی اسٹریٹجی میں کشمیر سرفہرست مسئلہ ہے ۔کشمیر کے تنازع پرپاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن 1984ء کے موسم بہار سے اب تک پاک فوج کے شہداء سے لہورنگ گل و گلزار بنا ہواہے ۔ کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے ۔انگریز جاتے جاتے یہ مسئلہ پیدا کرگئے، جس نے علاقے میں سنگین کشیدگی پیدا کررکھی ہے ۔اب جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں بن چکی ہیں ،یہ مسئلہ کسی وقت بھی نہ صرف برصغیر کے خردِ امن کو تباہ کرسکتا ہے ، بلکہ اردگرد کے وسیع علاقے کو تابکاری اثرات کی زد میں لے سکتا ہے ۔ اسی لئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرنے دنیا سے اپیل کی ہے اور باالخصوص اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ اس مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر عوامی استصواب رائے کے ذریعے ہی حل کروایا جائے ،تاکہ علاقے کا امن تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ بلاشبہ پاکستان کی ہر حکومت کشمیر کے اسی پرامن حل پر زور دیتی رہی ہے ۔ لیکن دنیا کے منصفوں کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگی۔سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دی جاتی اور انہیں ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا ہے ۔ بھارت نے اب تو کشمیر کی جغرافیائی حیثیت بھی تبدیل کردی ہے اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے اس کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارت کا حصہ بنادیا ہے ۔ کشمیریوں کی آواز بند کرنے کیلئے انہیں دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید کردیا گیا ہے ، جموں و کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے ، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی ختم کردی گئی ہیں ۔ تاکہ کشمیر ی عوام اپنی حالت ِ زار اور مظلومیت کی داستانیں دنیا بھرکے لوگوںاور اداروں کے کانوں تک نہ پہنچاسکیں،جوکہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے ۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ صرف کشمیر کا ایک مسئلہ ہی متنازع نہیں بنایا ، بلکہ اب تو بھارت کی طرف سے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بالاکوٹ کے مقام پر سرجیکل اسٹرائیک کی جاچکی ہے ۔ بھارت کی یہ حرکت جارحیت اور عالمی قوانین کے منافی تھی ۔ لیکن پاکستان نے ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہونے کی حیثیت سے بے مثل صبروحوصلے سے کام لیا اور بھارت کی شیطنیت کا جواب کنٹرول لائن کے متنازع علاقے میں ہی دیا۔ جس میں بھارت کے دو جنگی طیارے تباہ کردیئے گئے ۔ ایک کا پائلٹ ابھی نندن کوجنگی قیدی بھی بنالیا گیا۔ بھارت، پاکستان کے حوصلے اور صبروبرداشت کا مسلسل امتحان لے رہا ہے ، اس نے پاکستان کی جانب ایک میزائل بھی داغا ۔ خوش قسمتی سے اس میں کوئی وارہیڈ نصب نہیں تھا، ورنہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوتا۔ پاکستان کے بارے میں بھارت کے مذموم عزائم کبھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی متعدد بار علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان ،آزادکشمیر اور گلگت و بلتستان کے عوام کو اسی طرح حقوق دلوائے گا ، جیسے 1971 ء میں مشرقی پاکستان کے عوام کو حقوق دلوائے گئے تھے۔ بھارتی وزیراعظم کی یہ دھمکیاں اوربڑھکیں دراصل اس کے جارحانہ عزائم کی غمازی کرتی ہیں ۔جب تک افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج موجود رہی ہیں، بھارت نے پاکستان کی مغربی سرحد پر دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ کھولے اور وہاں کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کو تربیت دیکر بلوچستان او ر فاٹا کے علاقوں میں داخل کیا گیا۔ پاکستان نے بھارت کی اس کھلی دہشت گردی کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور بھارت کے عزائم کو خاک میں ملایا۔ بھارت کے جارحانہ عزائم ایک کھلی حقیقت ہیں، ان کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی تیاریوں کو فول پروف بنائے ۔بھارت کے ذہن سے جارحیت کا خناس دور کرنے کیلئے دفاعی تیاریاں ہرلحاظ سے مکمل رکھی جائیں ۔پاکستان کے نئے آرمی چیف سید عاصم منیرنے اپنا منصب سنبھالتے ہی بھارت پر واضح کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کے عزائم ذہن سے نکال دے ،ورنہ پاک فوج اس کا حشرنشر کردے گی۔ پاکستانی عوام کا بھی فرض ہے کہ پاک فوج کے ساتھ پیدا شدہ فاصلے اوروقتی دوریوں کو فی الفور ختم کیا جائے تاکہ عوام اور فوج اپنے مشترکہ دشمن کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔