صدر ترکیہ کا دہشتگردی کیلئے راہداری نہ دینے کا بھرپور عزم
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کی راہداری کے قیام کی اجازت نہیں دینگے۔ ہم جنوبی سرحدوں پر 30 کلو میٹر طویل حفاظتی پٹی کے قیام کو پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائیں گے۔ دہشت گرد تنظیم اور اسکی پشت پناہی کرنے والوں کے حملے اور گندے عزائم ہمیں اس مصمم ارادے سے ہٹا نہیں سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ترکیہ پرانے ترکیہ سے مختلف ہے اور کوئی بھی ہماری سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔
گزشتہ ماہ 13 نومبر کو ترکیہ کے شہر استنبول میں خاتون کے خودکش دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد جاںبحق اور 81 زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ تقسیم سکوائر میں کیا گیا جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دہشت گردی کا ناسور پوری دنیا میں پھیل چکا ہے جس سے سب سے زیادہ مسلمان ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ گو کہ ترکیہ میں دہشت گرد حملوں پر پوری دنیا کے مذمتی بیانات سامنے آچکے ہیں اور وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر جان کربی بھی کہہ چکے ہیں کہ ترکیہ کو اپنی جنوبی سرحد پر دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے اور اسے اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے، ہم ترکیہ کی شامی سرحد پر پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ترکیہ کی طرح پاکستان کو بھی افغان سرحد کی طرف سے مسلسل دہشت گردی کا سامنا ہے جہاں سے بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا ملک پاکستان ہے جسے ایک طرف اسے اپنے ازلی دشمن اور عالمی دہشت گرد بھارت کی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف افغان سرحد سے اسکے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیوں میں مصروف ہیں جنہیں افغان انتظامیہ کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہر ملک کی ایسی پالیسی ہونی چاہیے کہ وہ خود کو بھی دہشت گردی سے محفوظ رکھے اور اپنے پڑوسی ملک کے تحفظ کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرے اور ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردوں کو داخل نہ ہونے دے۔ پاکستان افغانستان سے بارہا یہ تقاضا کر چکا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نوٹس لے مگر وہ پاکستان کے کسی تقاضے کو اہمیت نہیں دے رہا۔ اب ترکیہ کے صدر نے بھی دہشت گردوں کو راہداری نہ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے تو خطے کے تمام ممالک کو متحد ہو کر دہشت گردی کیخلاف کھڑے ہو جانا چاہیے تاکہ اس ناسور کا جڑ سے خاتمہ کیا جاسکے۔