کیا کہا تھا تحریک پاکستان کے بزرگوں نے جب وہ بدی کی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے آزادی کے لئے نکلے تھے؟ کیا انہوںنے نہیں کہا تھا کہ پاکستان امن اور محبت کا گہوارہ ہوگا۔ کیا بزرگوں نے نہیں بتایا تھا کہ رسول اللہؐ کس قدر صلح جواور درگزر کرنے والے تھے، ضرور بتایا ہوگا، انکے بزرگ تو قصہ ماضی ہوئے، مگر شائد اب کے بزرگ اس کردار سے محروم ہیں اور علما مفادات کے اسیر، ورنہ یہ کچھ ناں ہوتا جو سیالکوٹ میں ہوا بقول سچل سرمست
کہاں مومن کہاں کافر ،کہاں ہے ساحری ساحر
کہاں کاتب کہاں شاعر ، جو ہی ہے اصل اوئی ہے
فیض احمد فیض کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہی تھا، اشتراکی نظریہ کے حامی تھے مگر اللہ سے گلہ بھی کر لیتے تھا ’’ربا سچیا توں تے آکھیا سی‘‘ ان کے اسی شکوہ کی نشانی ہے جو اب تک ادبی شاہکار کے ساتھ ساتھ بہت سے جید علماکے لئے فکر کا سامان بھی فراہم کرتی ہے لیکن بزرگوں نے جو وعدہ کیا تھا پاکستان بنانے کے لئے اس اس خواب کی تکمیل پر فیض بولے تھے
یہ داغ داغ اْجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا‘ یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
اور کمال ہے ہمارا بھی بھی، علامہ اقبال کے افکار میں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
ہم نے تو علامہ کو بھی شرمندہ کر دیا جن کی شکوہ جواب شکوہ لازوال پیغام سمجھی جاتی ہیں تو ان کی شاعری پر سب متفق ہیں کہ وہ قرآن کی شعری تفسیر ہے، ان کا تعلق بھی راوی کنارے بسے سیالکوٹ سے ہی ہے جہاں سے کبھی محبت کا سوتا پھوٹتا تھا اور جس نے اقبال کے استاد مولوی میر حسن، فیض احمد فیض، اور ناں جانے کتنے فرزانے پیدا کئے مگر اب وہی شہر اقبال شہر قتال بن چکا۔ یاد ہے وہ دن، جب دو جواں سال بچے کسی ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھے، ڈکیت بھی ہوں گے، مگر ہجوم نے کس طرح انہیں سڑک پر بیدردی سے مارا، گھسیٹا اور پھر لٹکا دیا تھا، اور یہ سب کرنے والے بچ بھی نکلے،،، آج پھر اسی ظلم جبر اور قاتل سوچ کو دوہرایا گیا، اور ایک مشکوک حرکت کی آڑ میں وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلا گیا آپ نے سنا وہ جو دو عینی شاہد سامنے آئے وہ کیا تاویل گھڑ رہے تھے،،، جی،، کہتے ہیں ۔ جہاں طویل دہشت گردی کے باوجود آج بھی تمام مذاہب اور ادیان کے لئے محبت اور خلوص بھرا ہے ۔ ہوسکتا ہے نوجوان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہو، مرنے والے مینیجر نے واقعی کوئی ایسی قبیح حرکت کی ہو۔گر کیا اس کا بدلہ ایسے لیا جاتا ہے۔کیا ملک کا کوئی قانون موجود ہے یا نہیں اور کیا ہمارے پیارے پیغمبر ؐ نے ہمیں یہ سکھایا ہے؟گذشتہ دنوں ایک واقعہ کہیں پڑھا، نام یاد نہیں رہا، مگر لب لباب یہ ہے کہ کسی جنگ کے دوران رسول پاک کے پاس مسجد نبوی میں ایک کافر کمانڈر کو گرفتار کر کے لایا گیا۔ رسول اللہؐ نے اس کے ساتھ خود بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ رسول پاک اس کو کہتے رہے کہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بات کروِ مگر آگے سے وہ انتہائی بد تمیز لہجے میں بات کرتا اور اول فول بکتا اس دوران حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام اپنی تلواروں کو نکالنے کی کوشش کرتے تو رسول پاکؐ ہاتھ کے اشارے سے روک دیتے۔ تین دن یہی ہوتا رہا، اور پھر رسول پاک نے حکم دیا کہ یہ بہادر کمانڈر ہے اسے اس کے علاقہ کی سرحد تک پورے احترام اور حفاظت سے چھوڑ کر آو، آپؐ کے حکم پر عمل ہوا مگر جونہی اسے چھوڑا گیا پہلے تو وہ بگٹٹ بھاگا پھر کچھ دیر بعد رکا اور کچھ سوچنے لگا پلٹا اور پیدل دوڑتا ہوا واپس مسجد نبوی پہنچا اور رسول پاک کے کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام قبول کیا اور پھر صف اول کے مسلمان مجاہدوں میں شامل ہوا۔ اس عورت کا قصہ بھی بارہا کتابوں میں پڑھا ہے جو رسول کریم پر روز کوڑا پھینکنے کی ناپاک جسارت کرتی۔ایک دن بیمار ہوئی تو آپ اس کا حال چال پوچھنے پہنچے اور یوں شرمندہ ہوکر وہ مسلمان ہوئی اور پکی عبادت گزار بنی اور کیا ہم نہیں جانتے کہ جس طرح میرا رب اور آپ کا رب مسلمانوں کا ہی نہیں تمام انسانوں کا رب ہے، بالکل اسی طرح رسول پاک رحمت المسلمین نہیں، رحمت للعالمین ہیںستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھیں تری انجمن سے پہلے سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلیپرکھے تو ہمارے بھی کہیں سیالکوٹ سے ہی تھے، مسلمان بھی خوب پکے، حافظ قرآن بھی اور پنج وقت نمازی بھی مگر انہوں نے تو ہمیں کچھ اور ہی سکھایا، بتایا کہ گالی کا جواب گولی نہیں پھول اور شیرینی میٹھے الفاظ سے دیجئے تاکہ سامنے والا کچھ شرمدہ ہو اور اچھا سبق سیکھے، مگر کیا کیجئے اس فرقہ بازی اور طاقت سے اپنی ریت کا جو اب کچھ عرصہ سے رائج اور پختہ ہوتی جارہی ہے۔ مستزاد یہ کہ علم و عمل سے ہم پاکستانیوں کا کوئی لگا نہیں ہم ان وحشیوں کی شکل میں کیا تیار کر ہے ہیں؟ کبھی سوچا نہیں، بس ہمیں دشمن کا بچہ پڑھانا ہے مگر اپنا بچہ جاہل ہی چھوڑنا ہے یہ دلخراش واقعہ صرف ایک سانحہ ہی نہیں، بلکہ قوموں کی برادری میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ سمجھا جائے گا۔ ابھی پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر امریکی رپورٹ کی باز گشت ختم نہیں ہوئی۔ یورپی یونین کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے قرارداد موخر ہوچکی۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی درست کہتے ہیں کہ بھارت میں تو ہمیں مذہبی آزادیاں ناں ملنے کا بہت دکھ ہے، اور درست ہے۔ وہاں مسلمانوں کے قتل عام اور مساجد شہید کرنے کا ہمیں جائز طور پر دکھ بھی ہے، مگر کیا اپنے ہاں ہم جتھوں کو یہ سب کرنے کو کھلا چھوڑ دیں؟ ایسا کیا تو ہمارا کیا مقام ہوگا دنیا میں، کون ہم سے لین دین اور تجارت کرے گا۔ کون ہمارے ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک ہم وطنوں کو عزت دے گا؟ ان کی حفاظت یقینی بنائے گا؟ کیوں کوئی پاکستان کا اعتبار کرے گا۔ کیسے ہم ایف اے ٹی ایف سے نکلیں گے؟ کیوں یورپی یونین ارب ہا روپے کا سامان ایکسپورٹ کرنے کے لئے ہمارا جی ایس پی پلس اسٹیٹس جاری رکھے گا؟ اللہ بھلا کرے وزیر اعظم عمران خان کا جو فوری حرکت میں آئے، اس
حرکت کو ناقابل قبول قرار دے کر گرفتاریوں کی نوید سنائی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی شکریہ جنہوں نے کہا کہ سری لنکا کے شہری کا اس طرح بہیمانہ قتل قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ اس قسم کا ماورائے عدالت اقدام کسی طور قابل قبول نہیں، اورہدایت دی کہ فوج ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سول انتظامیہ کی بھرپور مدد کرے لیکن کسی کو تو ان سب حکمرانوں اور اکابرین سے پوچھنا ہوگا کہ وہ جو سالوں پہلے دو جوانوں کو سڑک پر بیدردی سے گھسیت کر مارنے کے بعد سرعام لٹکا دیا گیا تھا اس کا کیا بنا؟ ذمہ داروں کو کیوں سزا نہیں دی گئی؟ ابھی آس توٹی نہیں، ابھی یقین بے یقینی میں نہیں بدلا، بلکہ میرے جیسے بہت سے پاکستانی اب بھی یقین رکھتے ہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رْکے گا سفینہ غمِ دل
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
Dec 06, 2021