پولیس حکام کی عدم دلچسپی کا سلسلہ دراز ہونے لگا
اعلیٰ پولیس افسران کی طرف سے عدم دلچسپی کے باعث سرکل گوجرخان جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن گیا، منشیات فروشی چوری ڈکیتی سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر پولیس حکام نے آنکھیں موند رکھی ہیں کبھی کبھار خبر ملتی ہے کہ چند سو گرام چرس اور کچھ بوتل دیسی شراب پکڑ لی ہے ۔ چوروں ڈاکوؤں کو پکڑنا شاہد پولیس کے فرائض میں شامل نہیں گوجرخان شہر میں میاں عمران عباس کے بعد سے جرائم کی صورتحال کنٹرول میں نہیں آرہی، وارداتوں کا سلسلہ نان سٹاپ جاری تھانہ گوجرخان میں کسی ذمہ دارایس ایچ او کی تعیناتی اشد ضروری ہے جو سماج دشمن عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے ۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ کچھ عناصر کو میاں عمران عباس کی تعیناتی کے دوران تکلیف رہی ہے ۔ کیونکہ ان کے مخصوص مقاصد پورے نہیں ہو رہے تھے ، پھر ان کی ٹرانسفر پہ بہت سارے لوگ خوش ہوئے لیکن اس کے بعد سے اب تک جو تھانہ گوجرخان کے علاقوں کی صورتحال ہے وہ تشویشناک ہے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے، کھلی کچہریوں کے نام پر ڈرامے لگائے جاتے ہیں، عوام کو کسی فورم پر انصاف ملتا نظر نہیں آتا، گوجرخان تھانے میں صرف ایف آئی آر کا اندراج ہو جاتاہے اس کے علاوہ سائل کو جھڑکیں ملتی ہیں،انصاف ہوتا نظر نہیں آتی، اسلحہ کی نوک پر فون چھیننے، نقدی، موٹرسائیکل چوری، زیورات چوری کی متعدد وارداتیں تسلسل کیساتھ ہورہی ہیں مگر نہ کوئی گینگ پکڑا جاتاہے اور نہ کوئی ملزم۔ یوں لگتاہے جیسے ڈکیتوں، چوروں، راہزنوں کو پولیس کی آشیر باد حاصل ہے انسپکٹر شہید میاں محمد عمران عباس کی تعیناتی کے دوران تقریباً ہر واردات کے ملزمان پکڑے گئے، ان سے مال مسروقہ برآمد کیا گیا، گوجرخان شہر میں تعینات ہونے والے اچھے اور فرض شناس پولیس آفیسر ، جنہوں نے اپنے فرائض کو فرض عین سمجھتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیئے، انہیں گوجرخان کے عوام نے ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھا ایسے پولیس افسران دن ہویا رات اپنی ٹیم کے ہمراہ فیلڈ میں موجود رہے اور عوام کو احساس دلایا کہ وہ واقعی عوام کے ملازم ہیں۔ خاص کر شہید ایس ایچ او میاں عمران عباس کو شہری بہادر اور فرض شناس آفیسر کے طور پر ابھی تک یاد کرتے ہیں بعض اوقات کسی واردات کے ملزم ہفتہ دس دن تک پکڑے نہیں جاتے تھے اور میڈیا پہ خبریں گردش کرتی تھیں تو میاں عمران عباس کا یہ کہنا ہوتا تھا کہ ایک ہفتہ یا پندرہ دن مجھے دیں، واردات ٹریس نہ ہوئی، ملزمان نہ پکڑے گئے، مال مسروقہ برآمد نہ ہوا تو آپ بیشک میرا میڈیا ٹرائل شروع کر دیں۔ اور یہی ہوتا تھا کہ اس شخص کے دیئے گئے ٹائم فریم کے اندر اندر واردات ٹریس ہوتی، ملزمان گرفتار ہوتے، مال مسروقہ بھی برآمد کر کے میڈیا کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی جاتی۔ میاں محمد عمران عباس کے پاس ٹیم بہت مضبوط تھی جو اس کے اشاروں پر دن رات ایک کر کے وارداتوں کو ٹریس کرتے تھے، اب نہ وہ ایس ایچ او اور نہ ویسی ٹیم۔مبینہ طور پر گوجرخان میں چوروں ڈکیتوں دیدہ دلیری کے ساتھ وارداتوں سے پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں خانہ پری کے لیے رات کو ناکہ لگا کر پولیس شہریوں سے بدتمیزی کرتی پائی گئی اور مبینہ طور پر اسکی آڑ میں مال بناؤ مہم جاری ہے شاید اسی وجہ سے آج تک پولس ناکوں پر کوئی جرائم پیشہ شخص گرفتار نہیں ہوا ۔ گوجرخان پولیس کے فسران کہتے ہیں کہ ان کے پاس نفری کم ہے جس وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔کیا اسی پولیس کو بدلنے کا دعویٰ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کیا تھا؟؟
پولیس نے ایک کھلی کچہری موجودہ DSP اور ایس ایچ او نے گوجرخان تحصیل آفس میں کی، اب کیا عوام انہی عوام کے ملازمین کے پاس جاکر شکایات درج کرائیں گے جو ان کو انصاف فراہم نہیں کرپا رہے۔ ایس پی انوسٹی گیشن غضنفر علی شاہ نے دو ماہ قبل کھلی کچہری ڈی ایس پی دفتر میں لگائی تھی اس میں جن سائلین نے اپنی شکایات درج کرائیں کیا ان کو انصاف مل گیا؟ ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور دوسرے سے تیسرے دفتر اور پھر واپس ڈی ایس پیگوجرخان اور ایس ایچ اوگوجرخان کی ٹیبل پر درخواست پہنچ جاتی ہے اور بس رپورٹ در رپورٹ لکھ لکھ کر سائل کو تھکا دیا جاتاہے تاکہ وہ تھک ہار کر اپنے گھر بیٹھ جائے۔ گوجرخان میں کسی فرض شناس افسر کی تعیناتی نہ ہونے دینے میں مقامی منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی بھی عیاں ہے ، کیونکہ اگر فرض شناس افسر تعینات ہو جائے اور عوام کے کام جھٹ پٹ سے ہونے لگ جائیں تو منتخب نمائندوں کو کسی نے کہاں گھاس ڈالنی ہے۔