تاریخ کا ایک ورق…2

حم 26 الحجرات میں ارشاد باری تعالی ھے کہ لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور گوتیں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ دراصل اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ھے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ھے۔ یقیناّ اللہ سب کچھ جاننے والا ھے قرآن مجید میں سورۃ الحجرات کی آیت 31 نہائت مختصر آیت ھے مگر یہ آیت ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت رکھتی ھے اس آیت میں اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے تین اہم حقیقتیں بیان فرمائی ہیں-
( ۱ ) تم سب کی اصل ایک ھے ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمھاری پوری نوع وجود میں آئی اور آج تمھاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی تفرقے اور اونچ نیچ کیلئے کوئی بنیاد موجود نہی ھے ایک ہی خدا خالق حقیقی ھے ایک مادہ تخلیق سے تم بنے ہو ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو۔
( 2 ) اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمھارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امر تھا- ظاہر ھے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہی ہوسکتا- نسل بڑھنے کیساتھ ناگزیر تھا کہ بیشمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں- اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خدوخال، زبانیں اور طرز بود و باش بھی لامحالہ مختلف ہی ہوجانے تھے اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو باہم بعید تر ہی ہونا تھا مگر اس فکری اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اسکی بنیاد پر اونچ نیچ اور شریف اور کمین برتر یا کمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں. خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی. اسی طریقہ سے ایک خاندان، ایک برادری ایک قبیلہ، ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک معاشرت بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے معاون ہوسکتے تھے مگر یہ محض شیطانی جہالت ھے کہ جس چیز کو اللہ تعالی کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخر اور تناظر کا ذریعہ بنا لیا گیا. اور پھر نوبت ظلم و عدوان تک پہنچا دی گئی.
( 3) انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ھے تو وہ صرف دینی و اخلاقی فضیلت ھے- پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ھے ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ھے- علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک، قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ھے جس میں اس کا اپنا ارادہ انتخاب اور اسکی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہی ھے- اصل چیز جسکی بناء پر ایک شخص کو دوسرے پر فضیلت حاصل ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ہو- براِئیوں سے بچنے والا ہو اور نیکی اور پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو خواہ کسی نسل قوم و ملک سے تعلق رکھنے والا ہو اپنی ذاتی خوبی کی بناء پر قابل قدر ھے اور جس کا حامل اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ھے پھر چاھے وہ کالا ہو یا گورا مشرق میں پیدا ہوا یا مغرب میں مسلم ہو یا مشرک سید ہو یا مصلی کوئی فرق نہی پڑنے والا ایک تاریخ ھے ان قریش قبائل کی جو عرب سے ہجرت کرکے مختلف ادوار میں ہندوستان آئے۔ عرب سے آمدہ ان قبائل میں سے دو قبائل ہاشمی اور اسدی ایسے قبائل تھے جن میں سے کچھ خاندانوں نے یہاں آکر نسب دانی کے پیشے کو اپنا ذریعہ روزگار بنا لیا- علم اسماء الرجال اور نسابی عربوں کا موروثی فن ھے اور اسی فن کی بدولت آج ہمارے پاس حضرت آدم علیہ السلام سے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک شجرہ نسب دستیاب ھے اور ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ نصابی جیسے فن کو آج تک امت مسلمہ نے قائم رکھا ہوا ھے۔ نسابی کا پیشہ صحابہ کرام نے بھی اپنایا اس کے بعد تبع تابعین سے یہ فن مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا- خلیفہ رسول ؐحضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اس فن کے عالم تھے- امام تقی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، عقیل ابن ابی طالب ، مخرمہ بن نوفل، جبیر بن معطم جیسے اصحاب نے اس فن کو اہم عروج سے نوازا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں باقائدہ " دیوان المیراث ‘‘ محکمہ قائم ہوا جس میں خاندانوں کی جائداد اور میراث کے ہمراہ خاندانوں سے شجرہ نسب کا اندراج کیا گیا- سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم، دوسرے نمبر پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور تیسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق ؓ اور پھر اموی ( بنو امیہ ) کے خاندانی نسب کا اندراج ہوا۔ بنی اسد کے قبائل میں سے حضرت عکاشؓ بن محسن بن جرثان اسدی اور حضرت زبیر رضی بن عوام اسدی کی نسل سے جو خاندان آباد ہوئے وہ صاحب علم النساب اورعالم علم المیراث ٹۃرے- اسی طرح ہاشمی خاندان سے حسن بن عبداللہ بن حضرت عباس علمدار بن حضرت علی رضی کی نسل سے بھی چند گھرانوں نے اس موروثی پیشے کو اختیار کیا---