لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
شاعر مشرق ؒ نے کہا اور خوب کہا
ہے شہادت گاہ میں قدم رکھنا
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس وقت جس دور سے گزر رہے ہیں لگتا یہی ہے کسی کے ساتھ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ دل کہتا ہے اس آگ پر چڑیا کی طرح اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ ضرور گرائو کہ محشر میںاس آگ کا حساب مجھ سے بھی لیا جائے گا ۔کچھ کہہ کر کچھ لکھ کر اپنا حصہ ڈالنا فرض بنتا ہے اس واقعہ کا تعلق حکومتی رٹ ، نظام عدل ،سماجی سوچ سے ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف اور قانون کا برا حال ہونا سمجھ میں آتاہے اس سے مایوس ہو کر لوگوں نے اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دیئے ہیں ۔ انصاف کا رعب اور وقارختم ہوچکا ہے ۔کاش جج صاحبان کیس ہی سنا کریں ،کمنٹری نہ کریں۔ اب تولگتا ہی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذہے اس لئے کہ ہمارے کمزور نظام عدل کی وجہ سے انصاف کا حال براہی نہیںبہت ہی برا ہے ۔ انصاف کے نظام میں ہم دنیا کے ممالک میں 126 نمبر پر ہیں ۔ابھی تک کسی نے اس نمبر کی تردید نہیں۔ اس کا تسلی بخش جواب ابھی تک کسی نے نہیں دیا ۔کہا جاتا ہے کہ اب تو بعض کیسوں کے فیصلے اپنی مرضی سے کئے جاتے ہیں ۔ اب تو شکایات عام ہیں کہ کئی کئی سالوں کے بعد کیس لگتے ہیں پھر انہیں قانون کے مطابق سنا نہیں جاتا ۔فیصلے قانون کے مطابق نہیں کرتے تو پھرایسے فیصلوں پر جب انصاف نہیں ملتا ۔کیس جلدی نہیں سنے جاتے ۔تو ایسے میں انگلیاں تو اٹھتی ہیں اور سیالکوٹ جیسے حالات جنم لیتے ہیں جس ملک کا نظام عدل ٹھیک نہیں ہوتا وہ ملک کبھی خوشحال نہیں ہوتا ۔وہ معاشرہ کبھی پرامن نہیں رہتا ۔سرعام ایک زندہ انسان کوالزام لگا کر پہلے مارا جاتا ہے پھر اسے جلا دیا جاتا ہے ایسا ہم پڑوسی ملک کی وڈیو دیکھ کر افسوس کرتے تھے اب تو اپنے گھر کی وڈیو پر خون کے آنسوں بہا رہے ہیں جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا اس سے ہمارے تمام اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ ایسا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ایسے واقعات سیالکوٹ میں ہی دوہزار دس رمضان میں دو سگے بھائیوں کو سحری کے بعد روزے میں جس طرح قتل کیا گیا تھا اس واقعہ کی وہ خوفناک تصویرآج بھی سب کے سامنے ہے ۔یہ دونوںبھائی ہندو نہیں مسلمان تھے اور آج کے واقعہ نے ان دو بھائیوں کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ ابھی کچھ ہی ہفتے قبل پولیس کے آٹھ اہل کاروں کو ایک اسلامی جماعت کے ورکروں نے شہید کر دیا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ شہید کرنے والوں کو باعزت بری بھی کر دیا گیا ہے ۔ان پولیس والوں کو اگر ریاست انصاف دے چکی ہوتی تو یہ واقعہ دیکھنے کو نہ ملتا ۔ بقول حبیب جالب شاعر
اس دیس میں جو بھی جب چاہئے
لاشوںکو یوں ہی پامال کرے
جس کے نام پہ ظلم کیا، اس ذات کے آگے جانا ہے
اس خون ناحق کو پھر وہ ، میزان حشر میںتولے گا
ناموس کے جھوٹے رکھوالو ، بے جرم ستم کرنے والو
اے ظلم جبر کے متوالو ، تم حق کے نام پہ باطل ہو
تم وحشی ہو تم قاتل ہو اس رحمت عالم نے تم کو
کیا یہ اسلام سکھایا تھا،کیا یہ اسلام سکھایا تھا
ان واقعات سے لگتا ہے یہ مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں تھے۔ جاپان میں پچھلے تیس سال میں کوئی چوری نہیں ہوئی ،کوئی قتل نہیں ہوا، وہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا ، صفائی اتنی کہ سڑکوں پر منہ نظر آئے ۔دو نمبراور بے ایمانی کا تصور نہیں ۔کافروں کا ملک ایمانداری میں دنیا کے پہلے نمبر پر ہے ۔ ہم اسلامی ملک کے مسلم شہری مگر وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو جنگلوں میں جانور نہیں کرتے۔ اب ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ اس کا قصور وار ہمارا نظام عدل ہے ۔ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے ۔حکومتی رٹ نہیں ہے۔ راقم کے پڑوسی سابق ڈی جی اکرام بٹ ہر سال کی طرح اس سال بھی فش پارٹی کیلئے چشمہ براج سے تازہ سمندری مچھلی لینے گئے مگر خالی ہاتھ آئے اور غصے سے آئے۔ پوچھا کہاں ہے فش پارٹی ؟بڑے دکھی دل سے کہا ساتھیوں کے ساتھ مچھلی کی خریداری کرنے جب چشمہ براج پہنچا ۔وہاں بہت رش تھا ۔شور اٹھا وہ دیکھو کشیاں مچھلیوں سے بھری آ رہی ہیں ۔ ہم نے اپنے محکمے کے بندے کو ٹھیکدار سے ملنے کو کہا کہ ہمیں جلدی سے مچھلی دے دے مگر وہ ٹھیکدار کو ساتھ لے آیا ۔ بتایا کہ سر سن لیں ٹھیکیدار صاحب کیا فرما رہے ہیں۔ کہا سر یہ فارمنگ مچھلی ہے پلیز آپ نہ لیں ۔ ہمیں ا س کی باتوں پر یقین نہیں آیا تو اس نے ہمیں اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا یا اور وہاں سے پندرہ بیس کلو میٹر دور اس مقام پر لے آیا جہاں پر سڑک کے کنارے کھڑے ٹرکوں سے فارمنگ مچھلی اتار کر ساحل پر کھڑی کشیوں میں لادی جا رہی تھی ۔کہا یہاں یہ مچھلی دو سو روپے کلوہے ا ور ہم اسی مچھلی کو کشتیوں میں ڈا ل کر گھما پھرا کر چشمہ بیراج پر اتارتے ہیں تو لوگ یہ چشمہ بیراج کی مچھلی سمجھ کر گیارہ سوروپے کلو میں خرید لیتے ہیں ۔ایسی دو نمبری کا ایک واقع اپنا سنایا ۔ دو تین سال قبلمیں نرسری سے الائجی اور کالی مرچ کے پودے منہ مانگی قیمت پر لایا تھا۔ دو سال انتظار کے بعد کالی مرچ جسے سمجھتا رہا چیک کرانے پر پتہ چلا وہ کالی مرچ جیسی ضرور ہے مگروہ کالی مرچ نہیں ہے ۔ایسا ہی الائجی کے پودوں کے ساتھ بھی ہوا ۔وہ بھی جعلی دو نمبر نکلے ۔یہاں کے قانون سے انہیں ایسا کرنے پر سزا نہ ہوئی لیکن قدرت نے اانہیں سزائیں دیں کہ ان کا چلتا ہوا کاروبار نئے روڈ کے و سیع کرنے سے ختم ہو گیا۔ اگرقانون کا یہی حال رہا تو ہمارا شمار اگلے سال آ خری نمبروں پر ہوگا ۔