یہ کون سا اسلام ہے؟

ہمارے بچپن سے ہمارے ذہنوں میں ہماری مائوں نے اسلام کی جو شکل بِٹھائی تھی وہ آج بھی کسی چلتے پھرتے منظر کی طرح تازہ ہے۔ یہ کوئی چالیس سال پْرانی بات ہے ، تب پاکستان میں نہ انٹرنیٹ تھا نہ موبائل فون صرف ایک ٹی وی ہوتا تھا جس کی نشریات چوبیس گھنٹے نہیں صرف کچھ گھنٹوں پر محیط تھیں ، رہا ریڈیو تو اْس پر بچوں کا کوئی پروگرام نہیں تھا یا وہ بچوں کی سمجھ اور دسترس سے باہر تھا۔ تب بچے ماں کی گود میں ہوتے تھے اور وہیں سے ساری اخلاقیات سیکھتے تھے۔ اب ہر بچے کے ہاتھ میں ہر وقت ایک موبائل فون ہوتا ہے ! ماں کی گود ایک ایسی درسگاہ تھی جہاں سے ایک ایک لفظ سو بار سنسر ہو کر نکلتا تھا ؛ پھر زمانے کا ارتقاء ہوا اْنیسویں صدی نے آنکھیں موند لیں اور بیسویں صدی جدید ترین ایجادات سے لیس ہو کر چیختی چنگھارٹی آن وارد ہوئی ، ہمارے دور میں بھی ٹی و ی بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین سے ترقی کرتا کرتا ریموٹ تک آ گیا تھا جِناتی ریموٹ ہمارے ہاتھوں اور اختیار میں ہوتا تھا ہم اپنی مرضی سے چینل تبدیل کرتے ؛ لیکن اب انسانی ترقی کا یہ عالم ہے کہ انسان کے ہاتھوں میں موجود موبائل انسان کو ریموٹ کی طرح کنٹرول کرتا ہے۔ جو اپنے استعمال کرنے والے انسان کی سوچ کو مکمل گرفت میں لے کر اْس کے دل اور دماغ کو اپنے نظریات کا قیدی اور مطیع کر لیتا ہے۔ اخلاقیات کاجو درس ماں کی گود سے ملتا تھا وہ سچائی ، پاکیزگی اور انسانیت کی ذہن سازی کرتا تھا وہ درس آج کے بچوں کو بالکل بھی میسر نہیں۔کیونکہ اْن کی مائیں بھی اْسی جدید دور کے کمپیوٹر کی تربیت یافتہ ہیں ، جو خود ماں کی علمی گود سے محروم ہو گئیں، وہ آگے اپنی اولادوں کی کیا کردار سازی کر سکتی ہیں۔ اْنہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کے ٹی وی ڈراموں اور کمپیوٹر ، موبائل سے جو نفسانی خواہشات ، سازشیں ، رنجشیں ، سیکھی ہیں وہی کْچھ اْن کی اولادوں کو بھی ڈلیور ہو رہا ہے۔ جب سے ٹی وی سکرین اور موبائل سکرین نے انسانی دماغ کو اپنے کنٹرول میں لے کر چلانا شروع کیا ہے تب سے دل و دماغ کے انسانی جذبات اور احساسات کی جگہ خواہشات نے لے لی ہے۔ یہ وہ مْنہ زور خواہشات ہیں جو کسی مذہب کسی انسانیت کسی قانون کسی تعلیم اور تربیت سے عاری ہیں۔ یہ وہ آسیب ہے جس کا پیٹ دوزخ کی آگ بھی نہیں بھر سکتی۔
ہماری ماوں نے اپنی ماوں سے اسلام کی جو درخشاں کہانیاں سینہ بہ سینہ سْن رکھی تھیں اْن کے مطابق تو ہمارے پیارے نبیؐ وہ تھے جو گھر سے نکلتے تو کوئی ناہنجار بْڑھیا کہیں اْن کی راہ میں کانٹے بکھیر دیتی کبھی اپنے گھر کا کْوڑا کرکٹ اْٹھا کر اْن پر پھینک دیتی ایک دن وہ کافرہ اپنی بیماری کے باعث آپؐ پر کْوڑا پھینکنے نہ آئی تو آپ ؐ اْس کے گھر تشریف لے گئے کہ کیا بات ہے آج وہ اذیت دینے والی اپنے معمول کی عادت سے غافل کیوں ہو گئی۔۔۔ جب جا کر دیکھا تو وہ بخار میں تپ رہی تھی اور کوئی تیماردار بھی میسر نہ تھا جو اْسے دوا کِھلاتا یا پانی پلا دیتا آپؐ نے فرمایا کہ خاتون آج تم مجھ پر کْوڑا پھینکنے نہیں آئی تو میں تمہاری خیر خبر لینے آ گیا ، پھر اْس کی اتنی تیمار داری کی کہ وہ آپؐ کے حْسن سلوک پر نہ صرف شرمندہ ہوئی بلکہ اسلام بھی قبول کر لیا۔۔۔ یہ تھا اسلام اور انسانیت کے درس کا اصل چہرہ۔
آج جو اسلام ہمیں دِکھایا جا رہا ہے یہ پتہ نہیں کون لایا ہے ، آج اسلام کو غیر مسلموں سے اْتنا خطرہ نہیں جِتنا مسلمانوں سے ہے انسان نما سینکڑوں وحشی جانوروں کا وہ ریوڑ جس میں نہ کوئی مفتی تھا اور نہ کوئی مولوی جن میں کِتنوں کو شاید نماز بھی نہ آتی ہو۔۔۔ وہ کون سا مذہب پڑھ کے آئے تھے جو اْس غیر ملکی پریانتھا کمار پر ٹوٹ پڑے جو اْنہیں کما کر دینے آیا تھا ان درندوں نے نہ اْس کی معافی قبول کی نہ نادانستہ غلطی کی صفائی کا موقع دیا اور غلطی بھی کیا کہ اْس فیکٹری کی بیرونی دیوار پر لگے اشتہار کو پھاڑنا جب کہ دیوار پر اشتہار لگانا منع تھا۔ اس سے بھی پہلے اس سری لنکن باشندے کی پہلی غلطی اِن جاہل فیکٹری ملازمیں کو خدا کے کائناتی نظام کے نظم و ضبط پر چلانے کی کوشش کرنا تھی۔ وہ اْس ملک کا باشندہ تھا جو ہر سال ہمارے اندھوں کو ہزاروں آنکھیں فراہم کرتا ہے اس شرمناک واقعے کے بعد لگتا ہے کہ اب اس ملک میں صرف وہی اندھے نہیں ہیں جن کو دِکھائی نہیں دیتا ؟ بلکہ لاکھوں آنکھوں والے بھی اندھے ہیں ؟۔۔۔ جن کو دِکھائی دینے کے باوجود بھی نظر نہیں آتا !!!
اب ہمیں آنکھوں کے ساتھ ساتھ دماغوں کی بھی ضرورت ہے اور سائنس اپنی تمام تر ترقی کے باوجود کسی کو دماغ فراہم کرنے سے ابھی تک قاصر ہے۔