بیانیہ سے آگے…!

عملی کام کئے بغیر محض اگر اچھا تاثر پیدا کرکے مقاصد حاصل کرنے پر اکتفا کیا جائے تو نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ جنرل ایوب خان کی حکومت کو کئی اچھے کاموں کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارے معیشت دان اکثر اس بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان کا صدارتی نظام ملک میں رائج تھا پاکستان معاشی اعتبار سے ترقی کررہا تھا۔ پاکستان کا گروتھ ائیر بہت اچھا تھا۔ ایوب خان حکومت کو پاکستان کے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا ڈیم بنانے کا بھی کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی پہلی صنعتی پالیسی اس دور میں بنائی گئی۔ ملک میں کئی صنعتیں لگائی گئیں۔ دفاعی اعتبار سے بھی پاکستان اس دور میں مستحکم تھا۔ ایوب خان نے دس برس پاکستان پر حکومت کی۔ پہلے چار سال تو وہ بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ملک کا نظام چلاتے رہے پھر انہوں نے 1962ء میں ملک کو اپنا آئین دیا۔ اس آئین کے تحت پاکستان میں صدارتی نظام حکومت نافذ کیا گیا۔ اس نظام کا سارا ڈھانچہ بالواسطہ انتخابات پر کھڑا کیا گیا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان سے چالیس چالیس ہزار کونسلرز منتخب کئے جاتے تھے۔ یہی کونسلرز ارکان اسمبلی اور صدر کو منتخب کرتے تھے۔ اسی(80) ہزار کونسلرز بھی ارکان پارلیمنٹ اور صدر کے انتخاب کے لئے الیکٹرول کالج تھا۔ ایوب خان ون مین ون ووٹ یعنی بالغ رائے کی بنیاد پر براہ راست انتخابات کے خلاف تھے۔ وہ بنیادی جمہوریت کے نظام کا جواز یہ پیش کرتے تھے کہ پاکستان کے لوگ ابھی اتنے پڑھے لکھے اور سیاسی طورپر اتنے باشعور نہیں کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ارکان پارلیمنٹ اور صدر کو منتخب کر سکیں۔
جنرل ایوب خان کے دور کو ترقی اور استحکام کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جب ایوب حکومت نے 1968ء میں اس سال پورے کررہے تھی تو ملک میں دس سالہ ترقی کا جشن منایا گیا۔ عوام کو یہ تاثردیا گیا کہ ملک خوشحال ہوگیا ہے۔ لوگ بھی خوشحال ہوگئے ہیں۔ یہ طبی ترقی منایا جارہا تھا کہ چینی کی قیمت میں چار آنے( پچیس پیسے کلو )کے حساب سے اضافہ ہوا۔ جس پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ایک احتجاج شروع ہوگیا۔ اس احتجاج نے دس سالہ جشن ترقی منانے والوں کو ایک صدمے اور حیرت سے دو چار کردیا تھا۔
حقیقت یہ تھی کہ ایوب خان کے دور میں جو بھی ترقی ہوئی تھی اس سے ایک طبقہ مستفید ہوا تھا۔ عوام کو اس ترقی کا اتنا فائدہ نہیں ملا تھا جس کا جشن ترقی کے نام سے پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا۔ اس دور میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔ امیر غریب کا فرق بہت بڑھ گیا تھا۔ اس فرق سے ذوالفقار علی بھٹو نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگایا۔ بھٹو نے بائیس خاندانوں کو ملک میں عام آدمی کی مفلسی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور عام لوگوں کو قائل کرلیا کہ بائیس(22) خاندان جو ساٹھ کی دہائی میں صنعت کار بن گئے تھے۔ ملک کی ساری دولت کے مالک بن گئے ہیں۔ بھٹو کا روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ مقبولیت اختیار کرگیا۔ اس نعرے کی بنیاد پر پی پی پی نے دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں حیران کن کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا۔
ایوب خان کے دور میں یہ تاثر PERCEPTION بنایا جارہا تھا کہ ملک زبردست ترقی کررہا ہے جب کہ زمینی حقائق کچھ اورتھے۔ محض تاثر بنانے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک سمجھدار اور کایاں قسم کے بیوروکریٹ کو جب حکومت کی "IMAGE" بہتر بنانے کی ذمہ داری دی گئی تو اس بیوروکریٹ نے (نام لینا مناسب نہیں) جنرل مشرف سے کہا کہ اگر آپ کی حکومت کی کارکردگی پچاس فیصد ہے تو ہم اس کی بنیاد پر یہ PERCEPTION بناسکتے ہیں کہ حکومت بہت کامیاب ہے اور عوام سے کئے گئے دعوے پورے کررہی ہے۔ لیکن اگر حکومت کی کارکردگی تیس فیصد تک بھی نہ ہو تو پروپیگنڈہ یا میڈیا کے ذریعہ یہ تاثر قائم نہیں کیا جاسکتا کہ حالات بدل رہے ہیں۔ زبردست ترقی ہورہی ہے حکومت اپنے وعدے پورے کررہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اگر یہ سوچ رہی ہے کہ وہ تو بیانیوںکے ذریعہ اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام میں مثبت تاثر پیدا کرسکتی ہے تو اسے اپنی سوچ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ محض بیانیے یا NARRATIVE کے زور پر مثبت IMAGE بنانا ممکن نہیں ہے اس کے لیے عملی کام کرنا لازمی ہے۔ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ "ACTIONS SPEAK LOUDER THAN WORDS" الفاظ میں تاثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگوں کو محسوس ہورہا ہو کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس ابھی تین سال سے زیادہ عرصہ باقی ہے جس میں وہ عملی کام اور اپنے وعدوں پر عمل کرکے اپنے بارے میں عوام کی رائے بدل سکتی ہے۔ محض زودار بیانیہ سے کام نہیں چلے گا۔ معیشت کی بہتری کے آثار تو پیدا ہوئے لیکن معاشی ترقی کے اثرات کو لوگوں تک منتقل کرنے میں وقت لگے گا اگلے دو تین سال میں کام کرنے کی رفتار بھی تیز کرنا ہوگی۔