کسانوں کاشتکاروں کا استحصال

مکرمی!ملک میں آئندہ سیزن کے لیے گندم کی بوائی صوبہ سندھ،جنوبی پنجاب میں تو مکمل ہو چکی ہے جبکہ وسطی شمالی پنجاب میں مکمل ہونے کے قریب ہے۔ اسی طرح ملکی زرمبادلہ میں ریڑھ کی ہڈی قرار دینے والی چاول مونجی کی فصل کی کٹائی مکمل ہو چکی ہے لیکن اس مرتبہ عین کٹائی کے موقع پر بارشوں سے چاول مونجی کی فصل جہاں گر گئی وہاں دوسری طرف فی ایکٹر پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔جس سے مونجی کے کاشتکاروں بالخصوص جن کسانوں نے ٹھیکہ پر زمین حاصل کر رکھی تھی ان کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب مڈل مین،سرمایہ دار،صنعتکار،کارخانہ دار اور کاروباری طبقہ انہی فصلوں سے اپنی آمدن میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے جبکہ کسان پیداواری لاگت بیج،زرعی ادویات،کیمیائی و نامیاتی کھادوں،ڈیزل،بجلی،کی قیمتوں مین ہو شربا اضافے کے بر عکس مارکیٹ ویلیوکے مطابق اپنی محنت کی کمائی حاصل نہیں کر پاتا کسان بددل ہو کر زراعت پر اپنی توجہ کم کر رہا ہے۔ کی صورتحال سب کے سامنے ہے ایک سال تک کسان گنا کی فصل پر اخراجات کرتا ہے گنا شوگر ملز کی دہلیز پر لے جا تا ہے جبکہ شوگر ملز والے اسی کسان کے ساتھ تضحیک امیز رویہ اپنائیں انہیں کئی کئی دن گنا لوڈ کروائیں گنے کے تول میں ڈنڈی ماریں اور آخر میں اسے رقم دینے کی بجائے رسید ہاتھ میں تھما دیں کہ وہ 4 ماہ انتظار کرے جبکہ شوگر ملز مالکان کرشنگ سیزن میں چینی کی پیداوار حاصل کر کے اپنی چینی اندرون و بیرون ملک فروخت کر کے اربوں روپے حکومت سے سبسڈی کی صورت میں حاصل کریں۔ ملزم مالکان کو کوئی اس لیے ہاتھ نہیں ڈال سکتا کہ ملک میں برسر اقتدار، برسر پیکار حکمرانوں و اپوزیشن جماعتوں کے سیاست دانوں کی ہیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اس وقت چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے ہونی چاہیے لیکن یہ 75 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یا سیاستدان اس پر آواز نہیں اٹھارہا۔ (چوھری فرحان شوکت ہنجرا، لاہور)