جمعۃ المبارک‘ 8؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 6؍ دسمبر 2019ء
’’محمدؐ‘‘ ایک بار پھر برطانیہ کا مقبول ترین نام بن گیا
یہ شہد سے زیادہ وہ میٹھا نام ہے یہ جو زباں پہ آتے ہی نظریں خودبخود اس کے احترام میں جھک جاتی ہیں۔ اپنے تو اپنے کوئی دشمن بھی اس کی عظمت سے انکار نہیں کر پاتا۔ ویسے تو دیکھا جائے یہ اس نامؐ کے خوبصورت صوتی اثرات کا بھی کمال ہے جو جسم اور روح پر سرور بن کے چھا جاتا ہے کہ جب یہ بولا جاتا ہے تو ہونٹ خود بخود دو مرتبہ اس نام کا بوسہ لیتے ہیں اور دل و دماغ کو سکوں ملتا ہے۔ کسی لہجے میں کسی زبان میں کسی آواز میں یہ نام لیجئے اس کا اپنا ہی سرور ہے۔ عربی ، فارسی ، اردو ، انگریزی، جرمن ، فرنچ، ہندی ہر زبان میں ہر لہجے میں یہ قابلِ تعریف ہی رہتا ہے۔ جیسا کہ اس کا مطلب بھی ہے کہ جس کی بے حد تعریف کی جائے۔ یہ نام تو ازخود بے حد تعریف کیا گیا ہے تو پھر دنیا اس کی ستائش نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی۔ بولنے میں آسان سماعت میں قرار۔ دل و دماغ میں سرور پیدا کرتا ہے یہ نام نامی اسم گرامی صرف برطانیہ میں ہی نہیں دنیا میں کیا مسلم کیا غیر مسلم اس نام کی کشش میں کھینچے چلے جاتے ہیں۔ اس نام کا حسن اور پیغام لوگوں کو متاثر کرتا چلا جاتا ہے۔ مسلمان تو زندہ ہی اس نام کی وجہ سے ہیں۔ سچ بھی یہی ہے کہ بزم ہستی کا وجود بھی اس نام نامی اسم گرامی کی بدولت ہے۔ جوں جوں لوگ اس کی طرف بڑھیں گے۔ دنیا میں امن، آشتی اور نیکی کا دور دورہ ہو گا، شر اور شریروں کا خاتمہ ہو گا۔
٭٭٭٭
شہباز شریف باہر چلے گئے پیچھے کڑچھے چمچے چھوڑ گئے۔ فیاض الحسن چوہان
پنجاب میں وزیر اطلاعات کی کرسی دوبارہ سنبھالنے والے فیاض الحسن چوہان نے آتے ہی ایک بار پھر چوکے چھکے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔ خاموش تو اس وزارت سے علیحدگی کے بعد بھی وہ نہیں تھے۔ مگر اس طرح گرجنا برسنا بطور وزیر اطلاعات ان کی پہچان بن چکا تھا۔ سو اب وہ واپس اپنے پہلے منصب پر بحال ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں حکومت کی پالیسی اپوزیشن کے خلاف برسرپیکار رہنے والی ہے یا اپوزیشن کے ساتھ صلح صفائی۔ کیونکہ اگر بیان بازی کی یہی کیفیت رہی تو جوابی بمباری بھی کچھ کم نہ ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) والوں کے ساتھ فیاض الحسن چوہان کی پرانی یاری ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر پلٹتے جھپٹتے رہتے ہیں۔ مگر چوہان جی جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب کو شیر شاہ سوری اور وسیم اکرم پلس ثابت کر رہے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ورنہ شیر شاہ سوری کہلانے کا شوق تو ہمارے پچھلے حکمرانوں کو بھی بہت تھا۔ انہوں نے سڑکوں، گلیوں اور موٹرویز بنا کر اس کا کسی حد تک ثبوت بھی دیا ہے۔ اب اگر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی کچھ کر کے دکھائیں تو انہیں بھی یاد رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ صرف اکیلے یہ ذمہ داری فیاض الحسن جیسے وزیر اطلاعات کو اٹھانی مشکل ہو جائے گی جو اس وقت بقول ان کے چمچوں اور کڑچھوں سے نبردآزما ہیں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ ویسے تیز طراز مخالفین کو ہمیشہ یہی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ اتنا برا کام بھی نہیں ہے۔ حضرت غالب بھی اس کی تعریف میں فرما چکے ہیں۔ …؎
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اترتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا تھی
اب مصاحب کا مطلب جو جی چاہے لے لیں۔
٭٭٭٭
سیاستدن ان آوارہ بطخوں کا نام ہے جو فوجی گھونسلوں میں انڈے دے کر جو ان ہوئے۔ شیخ رشید
واہ جی واہ کیا بات ہے، شیخ رشید کی۔ جس تھالی میں کھا رہے ہیں اسی کو بجا رہے ہیں۔ شیخ جی کی ساری کمائی اسی سیاست نامی پیشے سے وابستہ ہے۔ ذرا سا بھی یہ دھندا چوپٹ ہو جائے تو اس قماش کے سیاستدانوں کے گھر صرف چند روز ماتم بچھتی ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ کسی نئے در پہ ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کی صدائیں لگاتے محفل گرم کرتے ہیں۔ اپنے قبیلے کی بدخواہی تو مرد ناداں بھی نہیں کرتے۔ شیخ جی تو خود مرد دانا قرار دیتے ہیں۔ آج جس طرح وہ سیاستدانوں کو آوارہ بطخیں کہہ رہے ہیں وہ خود بھی ان میں شامل ہیں۔ صرف آرمی والوں کے گھونسلوں میں کا کیا وہ تو خود بھی کئی سویلین گھونسلوں میں انڈے دیتے آئے ہیں۔ کسی کی تذلیل یا توہین کرنا بڑے لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تو شادیوں پر آئے بھانڈ بھی دائیں بائیں دیکھ کر جگتیں کستے ہیں۔ باقی کون کہاں پل کر جوان ہوا ، کون کس کے صدقے کھاتا رہا یہ سب باتیں صرف شیخ جی ہی نہیں پاکستان کے 22 کروڑ عوام بھی جانتے ہیں۔ سیاستدانوں کی پہلے ہی تذلیل کیا کم ہو رہی ہے کہ پورے ملک میں ان کے سوا کوئی کرپٹ نہیں مل رہا۔ باقی سب تو دودھ کے دھلے ہیں جن میں شاید شیخ جی بھی سچ کہتے ہیں اپنی مرغی خراب نہ ہو تو دوسروں کے گھر انڈہ کیوں دے۔
٭٭٭٭
ریکوڈیک کیس میں پاکستان کو جرمانہ، امریکی اخبار نے عالمی بنک کا مصالحاتی نظام ناقص قرار دیدیا
عالمی بنک کا تو کام ہی مالی طور پر کمزور ملکوں کو زیر بار کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس بنک کی روزی انہی امیر ملکوں کی مرہون منت ہے جو اس کا سہارا لے کر اس بنک کے اللے تللے پورے کرتے ہیں۔ اب جو جس کا کھاتا ہے۔ اس کے گن گاتا ہے۔ غریب ملکوں کو یہ بنک اور ا س کے مائی باپ امیر ملک ترقی اور خوشحالی کے جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔ جب وہ ممالک ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو انہیں قرضے کی لت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی آواز بلند کرے تو عالمی بنک اس آواز کے گلے گھونٹنے میں قصائی والا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی کچھ ریکوڈیک منصوبے میں میں بھی اس بنک کے مصالحتی نظام نے کیا۔ پاکستان کو 5 ارب 90 کروڑ ڈالر کا بھاری بھرکم جرمانہ اس ناانصافی کی واضح مثال ہے۔ اب نیویارک ٹائمز نے عالمی بنک کی ناقص مصالحتی پالیسی کا پردہ چاک کر دیا ہے کیونکہ فیصلہ ایسے منصوبے میں د یا گیا جو ابھی منظور ہوا ہی نہیں تھا اور پھر فیصلہ کرنے والوں میں کوئی کان کنی کا ماہر بھی موجود نہیں تھا جو نفع نقصان اور دیگر ٹیکنیکل امور میں مہارت رکھتا ہو۔ عالمی بنک نے جواب میں گرچہ کہا ہے کہ ماہرین کے پینل کا انتخاب دونوں ملکوں کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ مگر یہ جرمانے کے فیصلے کی تائید نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں محب وطن ، دانش مند قیادت کا فقدان رہا ہے۔ ورنہ ایسے بودے فیصلے کیوں کئے جاتے جس سے ملک کا نقصان ہو۔
٭٭٭٭٭