جناب میاں صاحب! آپ کا شکریہ

تمام پاکستانیوں کا خیال ہے کہ قانونی پابندیاں اور قانونی موشگافیاں اسلامی مملکت پاکستان میں بڑے آدمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔انکے لئے قوانین بھی علیحٰدہ ہیں اور سزائوں کی نوعیت بھی۔ وہ ہر پابندی اور ہر سزا کو توڑ کر اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔انکی سزائیں بھی انکی اونچی اُڑان کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔ جیسے مرحوم ضیاء الحق کے مارشل لاء سے ڈر کر مصطفیٰ کھر صاحب انگلینڈ بھاگ گئے تھے۔ وہاں بہترین اور پر سکون زندگی گزاری۔بھارت یاترا کی عیاشی بھی کی۔بھارتی ٹینکوں میں بیٹھ کر پاکستان آنے کی دھمکی دی۔جب مارشل لاء ختم ہوا تو محترم واپس تشریف لائے اور انتخابات میں حصہ لے کر دیہاتیوں سے تقریر میں فرمایا:’’میں نے آپ لوگوں کے لئے جلا وطنی کاٹی۔تکلیفیں برداشت کیں ‘‘۔ یہ پرسوز تقریر سن کر دیہاتی رو دئیے اور ملک صاحب الیکشن جیت گئے۔ زرداری صاحب اور انکے پارٹی ممبران بھی ہر وقت یہی فرماتے ہیں کہ : ’’ زرداری صاحب نے گیارہ سال بے گناہ جیل کاٹی ‘‘ اور یوں عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں۔اسی طرح جناب میاں صاحب بھی ہر وقت فرماتے ہیں :’’ مجھ پر دس روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی‘‘ یوں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا سیاستدانوں کا عام مشغلہ ہے ۔یہ وہ شاطر لوگ ہیں جو اپنی سزا کو بھی عوام کے نام سے منسوب کر کے فائدے اٹھاتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جیلوں میں بھی ہر قسم کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ پر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔قوم کے ٹیکس کے کروڑوں روپے ان کی سہولیات، علاج معالجہ اور سیکورٹی پر خرچ ہوتے ہیں۔ یہ اتنے شاطر لوگ ہیں کہ جیل جاتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں اور انکی بیماریاں بھی ایسی ہوتی ہیں جنکا علاج وطن عزیز میں ممکن ہی نہیں۔
اسوقت میاں صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ محترم کو دس سالوں کی سزا ملی۔محترم کی بیٹی اور داماد کو بھی مختلف المیعاد سزا ملی۔ مشکل سے ایک ماہ جیل میں گزارا اور سزا معطل ہو گئی۔ ایسی سزائیں تو لوگ ہنسی خوشی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ اب میاںصاحب کو دوبارہ سات سالوں کی سزا اور سات ارب روپے جرمانہ ہوا۔ میاں صاحب بیمار ہو کر انگلینڈ پہنچ گئے ۔ان پر کرپشن کے اربوں ڈالرز کے الزامات تھے۔ نہ کرپشن کا پیسہ وصول ہوا اور نہ جرمانے کا۔ کر لے حکومت یا عوام جو کچھ بھی کر سکتی ہے۔گو میاں صاحب کو وقتی طور پر صرف چار ہفتوں کی اجازت ملی ہے جس میں توسیع ہو سکتی ہے لیکن لوگوں کی رائے میں میاں صاحب عمران خان کے دور حکومت میں واپس نہیں آئیں گے ۔جب کوئی نئی حکومت آئے گی تو میاں صاحب شان و شوکت سے تشریف لائیں گے ۔عدالتوں کا سامنا کریں گے۔بے قصور ثابت ہوں گے ۔تمام سزائیں اور جرمانے ختم ہو جائیں گے اور گمان غالب ہے کہ میاں صاحبان دوبارہ اقتدار میں آجائیں۔میاں صاحب کے ساتھ ان کے سمدھی اسحاق ڈار صاحب ، انکے بیٹے، انکے بھتیجے اور باقی رشتہ دار بھی ہوں گے اور قوم ان کا شاندار استقبال کرے گی ۔گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گی ۔ان کی ضبط کی گئی جائیدادیںبھی عدالتوں سے انہیں واپس مل جائیں گی۔یہ ہے طاقت کا کمال۔میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی پر بہترین تبصرہ ایک دیہاتی نے کیا۔جب اس سے میاں صاحب کی ضمانت اور باہر روانگی کا پوچھا گیا تو کہنے لگا :’’ پتر بھلا بادشاہوں کو کون روک سکتا ہے؟ عدالتیں ان کی اپنی ،جج ان کے اپنے، وکیل ان کے اپنے اور قانون ان کے اپنے تو فیصلے ان کی مرضی کے نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟ کیا کبھی کسی غریب کو بھی یہ سہولت ملی ہے‘‘؟
ہماری جیلوں میں گو ظاہری طور پر قیدیوں کے لئے علاج معالجہ کی سہولت موجود ہے لیکن یہ سب کچھ برائے نام ہی ہے۔ یہاں عام عوام کو علاج کی سہولت نہیں ملتی چہ جائیکہ قیدیوں کو۔ قیدی بیچارے تو ایڑیاں رگڑ رگڑکر مر جاتے ہیں اور یوں قید سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں انہیں کوئی پو چھنے والا نہیں ہوتا۔ میاں صاحب ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی قیدی کو اتنی وی آئی پی علاج کی سہولت پاکستان میں دی گئی بلکہ انہیں یہ ا ختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان کے جس بھی ہسپتال میں یا جس بھی ڈاکٹر سے علاج کرانا چاہیں کرا سکتے ہیں اور یہ سب کچھ سرکاری خرچ پر ہو گا یعنی عوام کے پیسے سے لیکن میاں صاحبان نے یہ مناسب نہ سمجھا ۔ ضدی بچے کی طرح باہر جانے کی ضد کی تو نہ حکومت انہیں روک سکی اور نہ عدالتیں ۔ان کی تیمارداری کے لئے ان کی بیٹی بھی ضمانت پر رہا ہو گئی۔بالآ خر میاں صاحب کی ضد پوری ہو گئی اور وہ باہر چلے گئے ۔ اپنے پیچھے کئی افواہیں اور قیاس آرائیاں چھوڑ گئے۔اب یقین ہے کہ انکی بیٹی بھی چلی جائیگی اور زرداری صاحب اور دیگر طاقتور مجرم بھی یا تو باہر چلے جائیں گے یا یہیں علاج کے نام پر ضمانت پر رہا ہو جائیں گے ۔میاں صاحب کے پارٹی ممبران تو بہت خوش ہیں کہ جرمانہ بھی نہ دیا کرپشن کے پیسے بھی واپس نہ کئے اور حکومت کو ٹھینگا دکھا کر باہر چلے گئے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب بیمار تھے ہی نہیں یہ سب کچھ باہر جانے کے لئے منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے ۔پھر کچھ شواہد بھی ایسے ہیں جو اس خیال کو تقویت دیتے ہیں۔ مثلاً روانگی سے کچھ دن پہلے جب ڈاکٹروں کے مطابق ان کی صحت بہت خراب تھی۔ پلیٹلٹس دو ہزار پر آگئے تھے۔ اسوقت انہیں سخت میڈیکل کئیر کی ضرورت تھی اور اس قسم کی میڈیکل کئیر ہمیشہ ہسپتالوں میں ہی ممکن ہوتی ہے ۔جہاں ہر وقت ڈاکٹرز اور نرسز موجود ہوتی ہیں تا کہ ضرورت کے مطابق ان کی ادویات میں تبدیلی کی جا سکے۔ انکی لمحہ بہ لمحہ بدلتی حالت کی مانیٹرنگ کی جا سکے لیکن میاں صاحب ہسپتال میں ٹھہرنے کی بجائے گھر تشریف لے گئے اور گھر کو ہسپتال میں تبدیل کیا۔مانا کہ انہیں وہاں ہر قسم کے ڈاکٹر مہیا تھے لیکن جو احتیاط اور علاج ہسپتال میں ہوتا ہے وہ گھر پر نہیں ہو سکتا۔ پھر گھر سے میاں صاحب کی صحت کے متعلق مختلف رپورٹس ملتی رہیں اور عوام کو بتایا جا تا کہ میاں صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے۔ انہیں فوری طور پر باہر علاج کی ضرورت ہے۔بعض اوقات یہ رپورٹس اتنی سنجیدہ ہوتیں کہ ان کی زندگی خطرے میں نظر آتی ۔تمام لوگوں نے ان رپورٹس پر اعتبار نہیں کیا۔ مثلاً ایک اخبار میں یہ رپورٹ بھی سامنے آئی کہ جس دن میاں صاحب کی پلیٹلٹس دو ہزار پر گرے تھے اس دن انہوں نے پورا جگ میٹھی لسی کا پیا تھا۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے مطابق جب پلیٹلیٹس کی تعداد بیس ہزار سے نیچے گرتی ہے تو مریض کی حالت بہت نازک ہو جاتی ہے۔ناک اور منہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن میاں صاحب کبھی ایسی صورت حال سے دو چار نہیں ہوئے ۔حالانکہ ان کے پلیٹلٹس دو ہزار تک آگئے تھے۔ لوگ بڑی توجہ سے میاں صاحب کی صحت کی مانیٹرنگ کررہے تھے۔ پھر میاں صاحب جس وقت جہاز پر سوار ہو رہے تھے بڑے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے اور سوٹ ٹائی میں ملبوس تھے حالانکہ اتنے سیریس مریض کو سٹریچر پر لیٹ کر جانا تھا۔ لیٹنے کے لئے سوٹ ٹائی کی ضرورت تو نہ تھی۔ انگلینڈ پہنچ کر بھی میاں صاحب ہسپتال داخل ہونے کی بجائے سیدھے گھر چلے گئے۔ ان کی رپورٹس بھی پبلک نہیں کی جا رہیں۔ صرف زبانی طور پر بتایا جا رہا ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہے یہ تمام شواہد ثابت کرتے ہیں کہ میاں صاحب بفضل خدا ٹھیک ٹھاک ہیں اور اپنی شاندار منصوبہ بندی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسی کانام سیاست ہے۔ ایک افواہ یہ بھی ہے کہ میاں صاحب حکومت سے ڈیل کر کے گئے ہیں اور رقم کوئی تیسری پارٹی ادا کریگی۔
عوام کی افواہیں اور قیاس آرائیاں اپنی جگہ ۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کونسی بات سچ ہے اور کونسی جھوٹ لیکن ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب تو اپنے علاج کے لئے باہر چلے گئے لیکن دوسرے قیدیوں کے لئے تو باہر علاج کا راستہ کھول گئے ۔پاکستان کی72 سالہ تاریخ میں آج تک نہ سنا ہے نہ دیکھا ہے کہ کسی مجرم قیدی کو جیل سے باہر ملک میں یا ملک سے باہر علاج کرانے کی سہولت دی گئی ہو۔معلوم نہیں کوئی ایسا قانون ہے بھی یا نہیں۔ خیال اغلب ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں ورنہ کسی کو تو یہ سہولت ملتی۔اب مثال قائم ہو گئی ہے جس سے تمام متاثرہ قیدی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میاں صاحب کو دی گئی سہولت اور عوامی تنقید کے پیش نظر 65سال سے زائد عمر کے وہ تمام قیدی جن کے جرائم معمولی نوعیت کے ہیں ان تمام کو وزیر اعظم کی طرف سے رہائی کا حکم دے دیا گیا ہے ۔مزید اہم بات یہ ہے کہ تمام بیمار قیدیوں کی لسٹیں تیار کی جا رہی ہیں جنہیں علاج کی سہولت ملے گی۔ جو قیدی اپنے خرچ پر ملک سے باہر علاج کرانا چاہیں گے انہیں بھی یہ سہولت ملے گی۔ اس سے بہت سے لوگوں کا فائدہ ہو گا جنہیں اس سے پہلے کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ لہٰذا ہم سب میاں صاحب کے شکر گزار ہیں کہ ان کی بدولت لاکھوں لوگوں کا بھلا ہو جائیگا۔ساتھ یہ بھی دعا گو ہیں کہ اگر میاں صاحب واقعی بیمار ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں شفا دے۔آمین!
٭…٭…٭