حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی
ظہور کاظمی
آپ کا سالانہ عرس ہفتہ7دسمبر اور حضرت غوث الاعظم کاسالانہ عرس اتوار8 دسمبرکو منڈیر سیّداں میں منعقد ہو گا۔
ظہور کاظمی
اے سیّدِ اقبا ل اے اُمت کے سہارے
جھکتے ہیں تیرے نام پہ گردوں کے ستارے
اقبال تیرا اوج صد افلاک سے بالا اوصاف تیرے عالم ِ ادراک سے بالا
تو ظلِ شہنشاہِ زماں ہے شہزادے اسلام کی تو روح ِ رواں ہے شہزادے
سر زمین منڈیر شریف طریقت و حقیقت کے شہسوار پیدا کرنے میں اپنا ثا نی نہیں رکھتی مگر تین مشائخ زیر زمین روپوش ہونے کے باوجودزندوں کی طرح تصرف کے حامل ہیں جن میں حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی (سجادہ نشین منڈیر سیّداں)حضرت علامہ مفتی سیّد افتخار احمد حسین گیلانی اور حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی بن امام العارفین حضرت سیّد احمد حسین گیلانی المعروف محبوبِ ذات قدس سرہ العزیزکے دوسرے فرزند ِ ارجمند ہیںاورخانوادۂ غوث اعظم میراں محی ّالدین محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ،شیر یزدانی،غوثِ صمدانی،سخی سلطان شیّخ سیّد عبدالقادر گیلانی غوث الثقلین سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کا شجرۂ نسب والدِ ماجد کی طرف سے حضرت اِمام حسن علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت اِمام حسین علیہ السلام سے منبیٰ ولایت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور آپ کا سلسلۂ طریقت 9واسطوں سے سیّدنا غوث پاک سے جا ملتا ہے۔تبلیغ اسلام کے سلسلہ میںحضور عالی سرکار حضرت محبوبِ ذات سیّد احمد حسین گیلانی نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔1931ء میں حضور عالی سرکار حضرت محبوبِ ذات ؒکے ہاں جبل پور میںبیٹا تولد ہوا جس کا نام آپ نے سیّد اقبال احمد حسین رکھا اور فرمایا کہ یہ عزتوں اور بلندیوں والا ہو گا۔ہزاروں لوگ اِس سے فیض یاب ہوں گے۔ہزاروں ضرورت مند دینی اور دُنیاوی کاموں میں فائدہ اُٹھائیں گے۔حضرت محبوبِ ذات ؒ کا یہ ارشاد باعینی سچ ثابت ہوا۔حضرت محبوبِ ذاتؒ جبل پور سے آلہ آباد پہنچے تو آپ نے اپنے فرزند ِارجمند سیّد اقبال احمد حسین شاہ کو قرآن اور ابتدئی تعلیم کے لئے آلہ آباد میں داخل کروا دیا۔بعد ازاںحضور عالی سرکار ؒآبائی گاؤں منڈیر سیّداں تشریف لے آئے اور پرائمری سکول روڑس میں داخل کروادیا۔پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعدآپ میڈل سکول قصبہ سمبریال میں داخل ہوئے بعد ازاں آپ نے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک کیا ۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور تشریف لے گئے۔اور یہاں سے ڈرافٹس مین کاکورس کیا ۔اِس عرصہ میں آپ سنت نگر لاہور میںچوہدری شیر محمد کے ہاں قیام پذیز رہے۔حضور عالی سرکار حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ العزیز نے دربار شریف کاانتظام وانصرام آپؒ جناب سیّد اقبال احمد حسین شاہ صاحب کے سپرد اوائل عمر میں ہی کر دیا تھااور حکم فرمایا کہ دربار شریف کا انتظام کنٹرول کرو۔آپ کو کنٹرولر کے لقب سے نوازا۔یہی وجہہ ہے کہ دربار شریف میں سب آپ کو کنٹرول صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔آپ کے پدرِبزرگوار حضرت محبوبِ ذاتؒنے ظاہراً ہر طرح کی تربیت فرمائی تمام باطنی منازل طے کروائیں۔ سرکار محبوبِ ذات ؒ کے وصال کے بعدآپ ؒنے دربار شریف کے تمام امور کنٹرول میںرکھے حتٰکہ نمازوں کی امامت بھی کافی عرصہ تک کرواتے رہے۔ اورلوگوں کے لئے دُعا اور تعویزات لکھنے اور دینے کا سلسلہ جاری رکھاتو ذمہ داریوںمیں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔آپ کا شجرۂ نسب 9واسطوں سے سرکارِ بغداد میراں محیّ الدین محبوب ِ سبحانی قطب ِربّانی شیر یزدانی غو ثِ صمدانی سخی سلطان السیّد عبدالقادر جیلانی ؒسے ہوتا ہواحضرت اِمام حسن علیہ السلام سے منبیٰ ولایت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے ۔آپ نے حضرت محبوبِ ذات کے روضۂ اطہر کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔گنبد پاک کے لئے خوبصورت سبزٹائلیں بڑی کوشش سے کراچی سے لائے جو کہ اپنی مثال آپ ہیں۔دربار شریف میںرات کو روشنی کے لئے ڈی سی جنر یٹر خریدا جو ٹیوب ویل کے انجن سے چلتا اور کئی سال تک بجلی فراہم کرتا رہا۔1965 ء میںاپنے اثر و رسوخ سے بجلی علاقے میں لانے کا بندو بست کیااُن دنوں آپ ضلع کونسل سیالکوٹ کے ممبر تھے۔تمام علاقے میںبجلی کی سہولت میسر آنے سے رونق دوبالا ہو گئی۔گھروں میں روشنی کے علاوہ پنکھوں، اور دوسری الیکڑونک اشیاء کی سہولت میسر آ گئی۔زمینداروں نے ٹیوب ویل کے لئے موٹریں لگو الیں۔جس سے زراعت میں نمایاں ترقی ہوئی۔دو فصلی خصوصاًچاول اور گندم وافر مقدار میں پیدا ہونے لگیں۔تمام بنجر زمینیں بھی آباد ہو گئیں اور اب پورے علاقہ میں زمین کا ایک ٹکرا بھی خالی دکھائی نہیں دیتا۔بجلی کی سہولت سے زمینداروں کی اقتصادی حالت بہتر ہو گئی۔1967ء میںبڑی جدو جہد اور اپنے اثر ورسوخ سے (شہر سیالکوٹ) سے تقریباً15 کلو میٹردور سے ٹیلیفون لائن منڈیر شریف تک لانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے۔ مریدین طالبین و ضرورت مند حضرات دور دراز علاقوں سے ٹیل فون کی بدولت اپنی حاجت روائی کے لئے دربار شریف سے دُعا کروا کر سفر کی طویل زحمت سے بچ جاتے،اِسی طرح ٹیلیفون کی بدولت بیرونِ ملک میں مقیم پاکستانیوں کو دربار شریف بات کرنے میں آسانی ہو جاتی۔الغرض ٹیلی فون کی بدولت دربار شریف سے ساری دُنیا کا رابطہ قائم ہو گیا۔منڈیر شریف پہنچنے کے لئے باقاعدہ سیدھا راستہ یا سڑک موجود نہ تھی۔لوگ پگ ڈنڈیوں پہ چل کے آتے،برسات کے موسم میں چلنا دشوار گذار تو کیا ناممکن تھا۔آپ نے شدت سے احساس کیا کہ مین سڑک(سیالکوٹ وزیرآباد روڈ)سے منڈیر شریف تک پختہ سڑک ہونے سے عوام کو آمد ورفت میں آسانی ہوگئی ،لیکن سڑک کے لئے زمین پہلے سے مختص نہ تھی،آپ نے گاؤں کی اراضی کا استعمال کروایا جس کے نتیجہ میں تمام زمینداروں کو اُن کی اراضی الاٹ کروانے کے بعد سڑک کے لئے معقول زمین بچ گئی۔جس پر آپ نے سیالکوٹ روڈ سے منڈیر شریف تک پختہ سڑک تعمیر کروائی۔جس کا عوام کو اِس قدر فائدہ ہوا کہ اب لوگ بآسانی کاروں،موٹر سائیکلوں،بسوںپر سفر کرتے ہیں،خاص طور پر مستورات کے لئے اب بہت آسانی ہے۔ساہووالہ اڈا سے منڈیر شریف گاؤں تک پختہ سڑک کی بدولت عوام کو رکشوں،ویگنوں اور بسوں کی سہولت میسر ہو گئی ہے،پیر صاحب کا یہ کارنامہ لائق ِصد تحسین ہے۔یہ سعادت بھی توفیق ایزدی سے حاصل ہوئی۔حضور سرکارِ عالی حضرت محبوبِ ذات ؒکو اپنے والدصاحب کی جانب سے حصّہ میں صرف پانچ ایکڑ اراضی ملی۔جس کو آپ کے برادرِ اکبرسیّد افضال احمد حسین سجادہ نشینی کے منصب پر فائز ہوئے تو سیّد اقبال احمد حسین نے زمین کو خود کاشت کرنا شروع کر دیا۔گاؤں کی زمین کے استعمال کے دوران پانچ ایکڑ اراضی اوّل کی بجائے آپ نے 13 ایکڑ بنجر اراضی اُٹھائی۔جسے ہموار اور قابل کاشت بنانے کے لئے انتھک محنت کرنا پڑی۔بعض اوقات آپ خود ٹریکٹر چلاتے اور سال میں دو فصلیں چاول اور گندم وافر مقدار میں حاصل ہوتیں۔آپ صبح تا شام کارندوں کے سر پر کھڑے رہتے اور اپنی زیر نگرانی کام کرواتے۔گندم اور چاو ل کی لگوائی ،کٹائی زیر نگرانی کرواتے۔گندم کی ساری فصل دربارشریف کے لنگر کے لئے سٹور میں محفوظ کروادیتے جو سال بھر لنگر شریف میں استعمال ہوتی۔یہاں تک کہ گندم کا بھوسہ بھی اپنے مال مویشوں کے لئے محفوظ کر لیتے۔چاول کی فصل(مونجی) بھی اپنی نگرانی میں آڑھتیوں کوفروخت کر دیتے۔چاول کی آمدن سے گندم اور چاول کی فصل پر اُٹھنے والے تمام اخراجات پورے کرتے اور زرعی آلات خرید تے۔آپ کی انتھک محنت سے اراضی میں 80 ایکڑ رقبے کا اضافہ ہوا۔
پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دورِحکومت میں یونین کونسل روڑس کے چیئر مین بنے اِس کے بعد آپ ضلع کونسل سیالکوٹ کے ممبر منتخب ہوئے ۔بعدا زاں1985ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی پنجاب (پی پی 106 )کے رکن منتخب ہوئے ۔آپ نے MPA کی حیثیت سے اسمبلی میں کاشتکاروں مزدوروں اور غریبوں کے حقوق کے لئے بلاامتیاز آواز بلند کی ۔آپ نے حلقہ انتخاب میںنمایاں ترقی کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کے حلقے میں شامل183 دیہات جن میں مدرسے قائم کئے ۔تعلیم کو فروغ دیاْسڑکیں تعمیر کروائیں تاکہ لوگ بآسانی بڑے شہروں قصبوں اور منڈیوں تک جا سکیں۔صحت کے مراکز قائم کئے خواتین کے لئے سمبریال میں کالج قائم کیا۔اِس سے قبل جواں سال بچیوں کو تحصیل علم کے لئے ڈسکہ تا سیالکوٹ جانا پڑتا تھا۔ کالج کی سہولت میسر آنے سے علاقے کے لوگ بہت مشکور اور ممنون ہوئے۔ آج بھی یاد کرتے ہیں تو خوش ہوتے اور دُعائیں دیتے ہیں۔حکومتی فنڈز کے علاوہ شاہ صاحب نے اپنی گرہ سے فلاحی کاموں میں رقم لگا کر لوگوں کے بڑے بڑے دیرینہ مطالبات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔MPA کی حیثیت سے اُس دور میںآپ کوتنخواہ اور TADA کی رقم جوسالانہ تقریباً تین لاکھ پینسٹھ ہزار3.65000/00 بنتی تھی اپنے اور اپنی اولادپہ خرچ کرنا حرام خیال کرتے تھے۔TADA تمام حلقے کے ترقیاتی کا موں میں خرچ کرتے حلقے کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرتے ۔ترقیاتی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے۔گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول منڈیر شریف اپنی اراضی میں تعمیر کروایا۔جس پر اُس وقت80.000/00 روپے لاگت آئی وہ بھی اپنی گرہ سے ادا کئے۔اپنے دور میں لوگوں کی مشکلات از خود حل کر دیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ کے دور میں آپ کے حلقے کی کسی ایک خاتون کو بھی طلاق کی لعنت سے دو چار نہ ہونا پڑا۔مظلوموں کی داد رسی کی۔رشوت کا قلع قمع کیا۔انصاف کا دور دورہ قائم ہوا اورعوام کو پولیس سے چھٹکارا مل گیا۔بہت سارے فیصلے پنچیتی انداز سے کئے جاتے تھے۔یہ آپ کی خدمات کا صلہ ہے جو آپ کے آبا و اجدادکا شیوہ تھا۔یہی حقوق العباد کی سر انجام دہی ہے۔یہ سعادت بھی توفیق الٰہی سے نصیب ہوئی۔مختصراً یہ کہ آپ نے بطورMPA 32 دیہات میں بجلی کی فراہمی۔2 دیہات میں بنیادی ہیلتھ سنٹر۔45 دیہات میں پرائمری سکول کی عمارت۔43دیہات میںاجرا سکولز۔8 دیہات میں درجہ پرائمر سکولوں سے مڈل سکول۔3دیہات میں درجہ مڈل سکولوں سے ہائی سکول۔12 دیہات میںسکولوںکی مرمت و چاردیواری۔بچیوں کے لئے ایک کالج سمبٹریال قصبہ میں۔38دیہات میں سولنگ راستہ جات۔28دیہات میں گلیاں نالیاں و فرش بندی۔7نالوں پہ پُل۔35میل لمبی ترکول سڑکیں بنوائیں اور اِس کے علاوہ رندھیر تااڈا بیگووالہ لنک روڈ کی تعمیر شامل ہیں۔
معروف شاعر امجد علی امجدؔنے آپ کی بلند اقبالی پہ چند اشعار لکھے۔
اقبال کی عظمت کے ستارے بھی گواہ ہیں تعریف کریں دُشمن پیارے بھی گواہ ہیں
وہ رُعب تھا کہ جس سے مرغوب بھی سارے شفقت کا یہ عالم کہ محبوب بھی سارے
نیر ّ کی طرح اُس کا چمکتا ہوا چہرا و ہ زیب ِ نظارت تھا دھمکتا ہوا چہرا
شہزاد کو سرکار کا ہی پیار دیا ہے شہباز کو نہ دِ ل سے کبھی دو ر کیا ہے
اقبال تم امجد کے سدا ساتھ ہی رہنا عزت کے بنا دُنیا میں کیا جینا ہے جینا
حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی قلیل مدت علالت کے بعد لاہور کے نجی ہسپتال میںجمعرات۔20 ،دسمبر کو صبح6.45 انتقال فرما گئے۔آپکی تدفین آپ کے پدرِبزرگوار کے پہلو اور آپ کے برادر ِاکبرحضرت سیّد افضال احمدحسین گیلانی کے ساتھ آپ کی وصیت کے مطابق کی گئی ۔نمازِجنازہ معروف روحانی پیشوائ،اسکالر اورشاعر آپ کے برادرِ حقیقی سیّد امجد علی امجدنے پڑھائی۔۔ آپ نے اپنے پدرِ بزرگوار کے سلسلۂ طریقت کو آگے پڑھتے ہوئے تبلیغ اسلام سے ہزاروںافرادکے قلوب کو منورفرمایا۔بہت سی کرامات آپؒ سے سرزد ہوئیںبعض اوقات تو سائل کی عرض داشت سنتے ہی پوری فرمادیتے۔آپ نے کبھی کسی مرید کو اپنے دستِ بیعت نہیں کیا بلکہ اپنے پدرِبزرگوار حضرت محبوبِ ذات کے دستِ بیعت کرواتے۔ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ سرکار میرے مرشد مجھ سے ناراض ہیں،مہربانی فرمائیں کہ راضی ہو جائیں۔آپؒ نے فرمایا مرشد حیات ہیں۔جی نہیں! گھر جا کے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد10 منٹ تنہائی میں بیٹھنا اور اپنے مرشد کو یاد کرنا،اُن سے ملاقات ہو گی ،معافی طلب کرنا،وہ خوش ہو جائیں گے۔یاد رکھو مرشد کبھی ناراض نہیں ہوتے،وہ مرشد ہی کیاجو ناراض ہو جائے،یہ سب مرید کے اپنے وسوسے ہیں۔ایک شخص بڑی تکلیف سے تھا اُسے اُٹھا کے لائے تھے۔آپ نے اُسے دیکھتے ہی فرمایاآج رات رُک جاؤ صبح اپنے پہ چل کے جاؤگئے،لہٰذا ایسا ہی ہوا۔آپ کی کرامات بیشمار ہیں ایک ضہیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔اتفاق سے اِس مرتبہ دو عرس یکجا ہورہے ہیں حضرت سیّد اقبال احمد حسین گیلانی
ہفتہ7دسمبر اور دوسرا حضرت غوث الاعظم سیّد عبدالقادر جیلانی ؒاتوار 8دسمبر کو مغربی دربار شریف منڈیر سیّداں سیالکوٹ میں انتہائی عقیدت واحترام سے منایا جائے گا۔