پاکستان میں بھی سگریٹ پینے والوں پر ’’گناہ ٹیکس ‘‘ عائد ہوگا
لیجئے فلپائن کے بعد پاکستان دوسرا ملک بن گیا جو سگریٹ نوشی پر قابو پانے کے لئے صرف زبانی کلامی کام نہیں کر رہا۔ عملی اقدامات بھی اٹھارہا ہے۔ پہلے فلپائن نے اس عادتِ بد پر قابو پانے کیلئے اس کو عام آدمی کی پہنچ سے دُور کرنے کیلئے اس سگریٹ نامی بلا پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ لگایا تھا۔ اب پاکستانی حکومت بھی اس بلا پہ قابو کے لئے عوام کے صحت کی دشمن اس عادتِ بد پر ٹیکس لگا کر سگریٹ مہنگے کر رہی ہے تاکہ یہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائے۔ اس گناہ ٹیکس کے بعد بہت سے لوگ اس گناہ بے لذت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صرف وہی لوگ سگریٹ نوشی کریں گے جو اس کے صلے ملنے والی مہلک بیماریوں کے علاج کی سکت رکھتے ہوں گے۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ مرتے ہیں اب ہماری غریب دوست حکومت ان غریبوں کی جان بچانا چاہتی ہے جو اس سگریٹ کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح ان غریبوں کی جو رقم اپنے علاج و معالجے پر خرچ ہوتی تھی اس کی بھی بچت ہوگی۔ وہ یہ رقم اپنے گھر پر یا فلاحی کاموں پر خرچ کر سکیں گے جن میں ڈیمز کی تعمیر سرِفہرست ہے۔ اب اگر حکومت کو کچھ اور فرصت بھی ملے نت نئے ٹیکس نافذ کرنے کا جی چاہے تو زندگی کے کئی اور بھی ایسے شعبے اور مشاغل ہیں جن پر اس قسم ٹیکس لگا کر وہ اپنا خزانہ بآسانی بھر سکتی بس ہمارے دیدہِ بینا قسم کے وزیر خزانہ اور ماہرین مالیات کو اس طرف ذرا توجہ دینی چاہئے کہ اور کون کون سے شعبے ایسے ہیں جن پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ یا ’’ثواب ٹیکس‘‘ لگا کر ریونیو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ زندگی کے بے شمار اچھے اور بُرے کام ہیں۔ سگریٹ نوشی کی طرح ان سب پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے…!
٭…٭…٭
ہم نے قومی اسمبلی میں درخواست دی تو عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے: وسیم اختر
یہ تو ’’چہ پدی چہ پدی کا شوربہ‘‘ والی بات ہے۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب خالو خلیل بیٹھے فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب تو خود کراچی کی میئرشپ کا حصول بھی ان کیلئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا۔ اس بات کا احساس خود میئر کراچی وسیم اختر سے زیادہ اور کس کو ہو سکتا ہے۔ ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا‘‘ بلدیاتی الیکشن ہونے دیں اسکے بعد ’’جس دیئے میں جانا ہوگی وہ دیا رہ جائے گا‘‘ کیا معلوم خود وسیم اختر کو دوبارہ موری ممبری بھی نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کا پہلے والا دم خم اب ہے ہی کہاں۔ وہاں تو ایم کیو ایم اس بات پر گومگوکا شکار نظر آتی ہے کہ وہ کسی فیصلے میں اپوزیشن کا ساتھ دے یا حکومت کا ۔ اس وقت ایم کیو ایم حکمران اتحاد میں شامل ہے جو آہستہ آہستہ پورے کراچی پر بھی سایہ فگن ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب آپ کی طرح کسی اور کو نظر نہ آئے تو کیا کہا جاسکتا ہے۔ صرف آپ ہی کیا پنجاب کے سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی اس امید پر بیٹھے ہیں کہ عمران خان خود ہی 6 ماہ میں حکومت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اب بھلا انہیں یہ خواب کس نے دکھایا؟ لگتا ہے وہ بھی دن کو جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے عادی ہیں اگر وزیراعظم نے 6 ماہ بعد بھاگنا ہی ہوتا تو وہ اس کنویں میں اُترتے ہی کیوں …! جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ تو فی الحال وسیم اختر اور رانا ثناء کے خوابوں سے ہٹ کر استحکام کی طرف دوڑ رہی ہے۔ فی الحال حکمران کھلے الفاظ میں کسی سے ڈیل کرنے یا کسی کو ڈھیل دینے سے انکار کرتے نظرآرہے ہیں جس کی وجہ سے لگتا ہے اپوزیشن کو اُلٹے سیدھے خواب آرہے ہیں…!!!
٭…٭…٭
بچپن میں مزدوری کرتا تھا۔ میں بھی چائلڈ لیبر کا شکار رہا ہوں: شیخ رشید
تو یہ سب کو معلوم ہے کہ شیخ رشید وفاقی وزیر ریلوے کوئی جدی پُشتی لینڈ لارڈ نہیں ہیں۔ مگر ان کی محنت مزدوری کا شاید ہی کسی کو علم ہو۔اب ان کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بچپن میں مزدوری کرتے تھے جس لال حویلی کے آج وہ مالک ہیں اس کے باہر تھڑے پر کتابوں کا سٹال لگاتے تھے۔ وہ بھی چائلڈ لیبر کا شکار رہے ہیں۔ یعنی انہیں بھی کام زیادہ اور معاوضہ کم ملتا رہا ہوگا۔ غلط کام کرنے یا سستی پر مار پیٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ اس زمانے میں چائلڈ لیبر کا کوئی تصور نہیں تھا جب شیخ جی بطور چائلڈ لیبر کام کرتے رہے ہونگے۔ ہمارے ہاں بھی یہ تصور ذرا نیا ہی ہے ۔جب سے نودولتیا طبقہ وجود میں آیا ہے‘ چائلڈ لیبر کا بدرواج بھی فروغ پانے لگا ہے جس کے نتیجہ میں آئے روز چائلڈ لیبر کے ساتھ زیادتی، قتل، تشدد کے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ بہرحال بات تو یہ ہے کہ پھر شیخ جی نے اتنی ترقی کیسے کر لی کہ جس لال حویلی کے باہر وہ کام کرتے تھے اس کے مالک بن بیٹھے۔ صرف یہی نہیں اپنا وسیع فارم ہاؤس بھی بنا لیا۔ ایم پی اے ایم این اے بھی بنتے رہے اور وزیر بھی بنتے رہے۔ خرچہ کون اٹھاتا تھا اتنی تیز رفتار ترقی کا راز یا تو انہیں معلوم ہے یا پھر کراماً کا تبین کو۔ ایسی ہی ترقیوں اور پُھرتیوں پر بہت سے سینئر سیاستدان اور حکمران آج کل زیرِ عتاب بھی ہیں مگر یہ صرف شیخ جی کا کمال ہے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں یہ قتل ہے یا کرامات …!!!
٭…٭…٭
سابق جج وجیہہ الدین کی سپریم کورٹ آمد، چیف جسٹس کی انہیں اگلی نشست میں جگہ دینے کی ہدایت
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار کیس سماعت کر رہے تھے کہ اس دوران پچھلی نشستوں پر بیٹھے سابق سینئر جج وجیہہ الدین کو دیکھ لیا۔ چیف جسٹس نے انہیں اگلی نشستوں پر جگہ دینے کی درخواست کی تو کئی وکلا حضرات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بظاہر یہ سادہ واقعہ ہے لیکن ایسا بھی نہیں بلکہ یہ ایک بھولے ہوئے درس کی یاد دہانی تھی اور تکریم انسانیت کا مظاہرہ تھا۔ یہ وہ روایات ہیں جو ہمارے اپنے ہاتھوں، بے توقیر ہو چکی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے برادر سابق جج کو تکریم دے کر معاشرے کو یاد دلایا ہے کہ ہماری اقدار میں پیسے والے سے زیادہ قابل احترام صاحبِ کردار علم و فضل ہیں۔ چھوٹی سی خبر نے بہت کچھ بھولا ہوا یاد دلا دیا۔ کاش! ہم اسے یاد رکھ سکیں!
یہ احترام اور ادب ذرا ہمارے وکیل بھائی بھی یاد کر لیں جو ہمہ وقت اسے بھول کر سڑکوں پر، عدالتوں میں نجانے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ دھینگامشتی، لڑائی جھگڑا، عدالتوں کی تالا بندی یہ سب کیا ہیں؟ جو طبقہ قانون کا محافظ ہو وہ ہی ایسی حرکات کرے تو پھر ’’کہاں کی رباعی کہاں کی غزل‘‘ امید ہے وہ بھی اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں۔ اب بدمعاشی کا دورلد گیا۔ سب کو سیدھا ہونا پڑے گا۔ ویسے بھی کہتے ہیں بنچ اور بار کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور لوگ یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’چولی کے نیچے کیا ہے‘‘۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024