مشیر خارجہ‘ پاکستانی ہائی کمشنر اور صحافیوں سے امرتسر میں ناروا سلوک بھارت نے اپنا داغدار چہرہ مزید سیاہ کرلیا
پاکستان سے ذاتی عناد اور بغض رکھنے والا بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا سرعام ویانا کنونشن کی دھجیاں اڑا دیں۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کےلئے جب پہنچے تو پاکستانی میڈیا نمائندوں کے ساتھ بھی بھارتی حکام کی جانب سے برا سلوک روا رکھا گیا، بھارت پہنچنے پر پاکستانی میڈیا نمائندوں کو موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ درپیش تھا۔ میڈیا نمائندوں کو جو سمیں فراہم کی گئیں وہ انہیں قریبا ساڑھے 3 گھنٹے کے پراسس کے بعد دی گئیں۔ بعدازاں بھارت نے سکیورٹی ایشو کا بہانہ بنا کر مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو ہوٹل سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ کانفرنس کے سکیورٹی عملے نے پاکستانی صحافیوں اور سفارتی عملے کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ہائی کمشنر عبدالباسط کو میڈیا سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کانفرنس کے سکیورٹی انچارج کو ڈانٹ دیا۔ عبدالباسط کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر ہوں۔ پاکستانی میڈیا والے میرے لوگ ہیں۔ ان سے بات کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ بھارتی حکام نے سکیورٹی ایشوز کا بہانہ کر کے سرتاج عزیز کو ہوٹل سے نکلنے اور گولڈ ٹیمپل کا دورہ کرنے سے روک دیا۔ سرتاج عزیز نے بھارت کے سفارتی آداب کے منفی روئیے پر شیڈول سے پہلے ہی وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ سرتاج عزیز کو بھارت میں پریس کانفرنس کرنے سے روکا گیا تھا اس لئے انہوں نے وطن واپس آکر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
سرتاج عزیز کی بھارت میں کانفرنس میں شرکت کی کچھ حلقوں کی طرف سے مخالفت کی جارہی تھی تاہم دنیا کے سامنے پاکستان کے مثبت رویے کے اظہار کیلئے وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا جس کی عالمی امور پر نظر رکھنے والے حلقوں نے حمایت کی۔ دنیا کے سامنے یہ واضح ہوگیا کہ بھارت نے پاکستان میں ہوینوالی سارک سربراہ کانفرنس سبوتاژ کی اسکے باوجود پاکستان نے امرتسر کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ جہاں پاکستانی صحافیوں‘ مشیر خارجہ اور ہائی کمشنر کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا تاہم پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت سے پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے آیا‘ اشرف غنی اور نریندر مودی کے زہریلے پراپیگنڈے کا مسکت جواب دیا گیا جس نے سرتاج عزیز کے اس کانفرنس میں شرکت کے فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ سرتاج عزیز خود بھی اس کانفرنس میں شرکت سے مطمئن نظر آئے۔ اس کانفرنس میں 40 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے جن تک پاکستان کا نکتہ نظر پہنچا۔ روس اور چین نے کھل کر پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ اشرف غنی اپنی تقریر کے دوران پاکستان کیخلاف بھڑکتے اور زہر اگلتے رہے تاہم کانفرنس سے قبل سرتاج عزیز کے ساتھ انکی ملاقات مثبت رہی۔ اشرف غنی کی طرف سے بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف الزامات لگائے گئے ہونگے۔ سرتاج عزیز کے ساتھ جو گفتگو ہوئی اسے سرتاج مثبت قرار دیتے ہیں۔ اسی بناءپر انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے مابین دوریاں پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان اور افغانستان دو جڑواں بھائی ہیں۔ ان کا عقیدہ‘ ثفاقت‘ سرحد اور تاریخ ایک ہے۔ مشیر خارجہ پرامید ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدگی عارضی ہے‘ دونوں ممالک میں اچھے تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ پاکستان افغانستان تعلقات اشرف غنی کے ہوش کے ناخن لینے اور حقیقت کا ادراک کرنے پر بہتر ہوسکتے ہیں۔ یا پھر نئی قیادت کے آنے سے امید رکھی جا سکتی ہے۔ مگر سردست افغان حکمران بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ بھارت ان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔
سائیڈ لائنز پر جواد ظریف اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ سے مثبت ملاقاتیں ہوئیں۔ چینی نائب وزیر خارجہ سے اچھی ملاقات ہوئی اور افغانستان میں قیام امن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔سرتاج عزیز کی موجودگی اور دوست ممالک کی حمایت سے ہی کانفرنس کا متوازن اعلامیہ سامنے آیا جس میں دہشت گردی کو خطے کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ایک ہونے پر زور دیا گیا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردی چاہے کسی بھی شکل میں ہو قابل قبول نہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسکے خاتمے کےلئے تمام علاقائی اور عالمی طاقتوں کو ایک ہونا ہوگا۔ نوجوانوں کی انتہا پسند اور دہشت گرد نیٹ ورکس میں شمولیت کو روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور علاقائی سلامتی‘ خود مختاری کے اصولوں پر کاربند رہنے اورہارٹ آف ایشیا کی پانچ کانفرنسز کے فیصلوں پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کہا گیا کہ تمام اقوام کی علاقائی خود مختاری کو یکساں اہمیت دی جائیگی، عالمی قوانین اور مسلمہ ضا بطوں کے مطابق دوسرے ملک میں مداخلت سے گریز کیا جائیگا۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی صحافیوں‘ ایک اعلیٰ عہدیدار اور ہائی کمشنر کے ساتھ توہین آمیز سلوک کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا‘ یہ بھارت کا عمومی رویہ ہے۔ جو بھارتی میڈیا‘ شدت پسندوں اور حکمران کی طرف سے سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب کی رونمائی کیلئے بھارت گئے تو انکی موجودگی میں شدت پسندوں نے انکے میزبان کا سیاہی سے منہ کالا کردیا تھا۔ پاکستان کے فنکاروں اور کھلاڑیوں کی تضحیک و تذلیل کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ سربجیت سنگھ کو کسی جنونی نے جیل میں ہلاک کر دیا تو اسکے بدلے میں بھی بھارتی حکومت کی طرف سے سفاکیت دیکھنے میں آئی۔ ایک پاکستانی قیدی کو تشدد کرکے مار ڈالا تھا۔ شہریار اور نجم سیٹھی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
وزیراعظم نوازشریف مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے گئے تھے‘ انکے ساتھ بھی سفارتی آداب کے برعکس سلوک روا رکھا گیا۔ وزیراعظم نواشریف اپنے ہم منصب کو مبارکباد دینے گئے تھے جبکہ مودی نے انکے سامنے چارج شیٹ رکھ دی۔ ممبئی حملوں کے ملزموں کیخلاف کارروائی کے سوالات اٹھاتے رہے۔ ان انڈین مورکھوں سے کوئی پوچھے کہ کیا یہی مہمان نوازی کے آداب ہوتے ہیں؟
اس سب کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ایک ہی راگ الاپا جاتا ہے ”ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے“۔ ان حالات میں بھی کہ بھارت نے ایل او سی پر جنگ مسلط کررکھی ہے‘ امن کی خواہش کمزوری ہی نہیں بزدلی ہے۔ جس طرح پاک فوج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی ہے‘ سیاسی سطح پر بھی Tit for tat کی پالیسی اختیار کی جانی چاہیے۔ آپ نے پاکستان میں موجودہ بھارتی ہائی کمیشن سے درجن بھر جاسوس ثبوتوں کے ساتھ پکڑلئے‘ اسکے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ خسارے کی تجارت بھی جاری ہے۔
بھارت نے جو سلوک مشیرخارجہ اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ کیا اس پر روایتی احتجاج کے بجائے بھرپور احتجاج کیا جائے۔ بھارت کے ہاں اخلاقی اقدار تو کیا سفارتی آداب اور عالمی قوانین کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ بھارت نے اپنے رویے اور اقدامات سے اپنے داغدار چہرے کو مزید سیاہ کرلیا ہے جو عالمی برادری کے سامنے بھرپور طریقے سے رکھنے کی ضرورت ہے۔