سینٹ کی دفاعی کمیٹی کو مودی سرکار کی بڑھتی جنونیت اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پر سیکرٹری دفاع کی بریفنگ
سینٹ کی دفاعی کمیٹی کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی حالیہ سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور مغربی سرحد پر افغانستان کی جانب سے زمینی اور فضائی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) عالم خان خٹک نے گزشتہ روز کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں نتیجہ میں 39 سویلین شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت جامع مذاکرات سے فرار چاہتا ہے اور پاکستان کی افواج کی توجہ مغربی سرحد سے لائن آف کنٹرول کی جانب مبذول کراکے جاری فوجی اپریشن ضرب عضب میں پاکستان کی کامیابیوں کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ انکے بقول پاک فوج نے پاکستان کی شہری آبادی پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا اور اس معاملہ کی تفتیش کیلئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ کو بھی بھارت کی سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا معائنہ کرایا۔ بریفنگ کے دوران دفاعی کمیٹی کو بتایا گیا کہ مودی کے دور میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ سیکرٹری دفاع نے افغانستان کی جانب سے کی گئی زمینی اور فضائی خلاف ورزیوں سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ افغانستان نے 28 نومبر تک 127 سرحدی خلاف ورزیاں کی ہیں اور افغانستان کی جانب سے ہونیوالی فائرنگ کے نتیجہ میں 18 پاکستانی فوجی شہید اور 15 زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک شہری بھی شہید اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ سیکرٹری دفاع کے بقول عالمی برادری کو پاکستان کے سفارتی ذرائع سے ان سنگین خلاف ورزیوں اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے آگاہ کیا جا چکا ہے جبکہ اسلام آباد میں افغان سفیر کو طلب کرکے بھی احتجاج کیا گیاہے۔
پاکستان کے ساتھ بھارتی کشیدگی کا سلسلہ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی جاری ہے جس کے دوران بھارت تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برعکس وادیٔ کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوا اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے اس نے یواین قراردادوں پر عملدرآمد سے بھی گریز کیا‘ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور 71ء کی جنگ کے دوران ایک گھنائونی سازش کے تحت پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک کی سرپرستی کرکے سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی نوبت لایا جس کے بعد باقیماندہ پاکستان کی سالمیت بھی ختم کرنے کی نیت سے اس نے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور پھر بھارت کی ہر حکومت پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے ایجنڈے پر ہی عمل پیرا رہی مگر پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور دشمنی کو انتہاء تک پہنچانے میں بھارت کی موجودہ مودی سرکار نے تمام سابقہ بھارتی حکومتوں کو مات دیدی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کی مودی سرکار اب باقیماندہ پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتی ہے جس کیلئے اس نے پاکستان میں دہشت گردی اور دوسری سازشوں کے تحت اسکی سالمیت کمزور کرنے کی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ یقیناً اسی حوالے سے بھارت میں ہندو جنونیت کو فروغ دیا گیا ہے جس کیلئے مودی سرکار نے بھارتی انتہاء پسند تنظیموں شیوسینا اور آرایس ایس کی سرپرستی کرکے اسے مسلمان بھارتی اقلیتوں اور بھارت جانیوالے پاکستانی دانشوروں‘ کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور تاجروں تک کا ناطقہ تنگ کرنے کی راہ پر لگایا اور انکے مظالم پر دانستاً خاموشی بھی اختیار کئے رکھی۔ مودی سرکار یہ سارے اقدامات اپنے پارٹی منشور اور ایجنڈے کے مطابق ہی اٹھا رہی ہے جبکہ مودی خود بھی پاکستان اور مسلم دشمنی میں پیش پیش رہے ہیں جنہوں نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وہاں کے مسلم کش فسادات میں ہندوئوں کی سرپرستی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔ اس بنیاد پر ان کیخلاف فوجداری مقدمات بھی درج ہوئے جبکہ امریکہ نے انکی فروغ پاتی ہندو جنونیت کے باعث ہی انہیں امریکہ کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
وزیراعظم بننے کے بعد تو مودی کو بھارت کے سیکولر چہرے پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دینا چاہیے تھا مگر پاکستان اور مسلمان دشمنی کا جھنڈا انہوں نے خود تھام لیا اور گزشتہ سال بنگلہ دیش کے قومی اعزازات کی تقریبات میں شریک ہو کر انہوں نے مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں حصہ لینے کا بھی فخریہ اعتراف کیا۔ اسی طرح مودی سرکار کی جانب سے بھارتی مسلمان‘ سکھ اور عیسائی اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کی پالیسی پر بھی عملدرآمد کا آغاز کیا جبکہ بھارتی پنڈتوں کو مقبوضہ کشمیر کی متروکہ وقف املاک حاصل کرنے کا آئینی حق دے کر وہاں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی گھنائونی سازش کی گئی جس کا بنیادی مقصد تقسیم ہند کے فارمولے کو سبوتاژ کرنے کا تھا۔ اس پر مقبوضہ کشمیر کے عوام اور قائدین نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو ان پر بہیمانہ تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو تاحال جاری ہے اور گزشتہ روز بھی کشمیری لیڈر یٰسین ملک کو زدوکوب کرتے ہوئے انہیں حراست میں لیا گیا جبکہ بزرگ کشمیری لیڈر سیدعلی گیلانی کے علاوہ میرواعظ عمرفاروق‘ محبوبہ مفتی اور دوسرے کشمیری لیڈران بھی بھارتی ریاستی جبر کی زد میں ہیں جنہیں کشمیریوں کی تحریک کی قیادت سے روکنے کیلئے متعدد بار گرفتار اور نظربند کیا جا چکا ہے۔ اب تو مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں اور کشمیر کو ہڑپ کرنے کے اسکے ایجنڈے کیخلاف سراپا احتجاج بنے نظر آتے ہیں جو مودی سرکار کو یہ آئینہ بھی دکھا چکے ہیں کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہرگز نہیں جبکہ آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اسکے بر عکس مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو انتہاء پسندی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جسکے نتیجہ میں سیکولر ہونے کے داعی بھارت میں مسلمان گردن زدنی ٹھہرائے جارہے ہیں اور انہیں گائے کا گوشت رکھنے یا کھانے کے محض شبہ میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اب تک اس بنیاد پر بھارت میں متعدد مسلمانوں کی جانیں لی جا چکی ہیں اور گزشتہ روز بھی بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع گڑگاں میں ہندو انتہا پسند غنڈوں نے گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں مسلمان ٹرک ڈرائیور کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا۔
اس ہندو جنونیت سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو خطرہ محسوس کرکے خود بھارتی شہریوں کی جانب سے مودی سرکار کیخلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور متعدد بھارتی دانشور‘ فنکار‘ کھلاڑی اور سابق بھارتی فوجی تک اپنے سرکاری اعزازات اور میڈل احتجاجاً مودی حکومت کو واپس کر چکے ہیں۔ انتہاء کو پہنچی ہوئی یہی ہندو جنونیت ہے جس سے اب عالمی قیادتوں کو بھی علاقائی اور عالمی امن خطرات کی زد میں نظر آتا ہے چنانچہ اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر عالمی قیادتوں کی جانب سے بھارتی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں ہندو جنونیت کو روکنے کے اقدامات اٹھانے کی تدبیریں کی جا رہی ہیں جبکہ دولت مشترکہ کے حالیہ اجلاس اور پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی بھارت کے اندر مودی سرکار کے پیدا کردہ حالات کی صدائے بازگشت سنی جاتی رہی۔
اس صورتحال میں ہندو جنونیت کے حوالے سے مودی سرکار کی پالیسیوں کو اقوام عالم میں بے نقاب کرنے کیلئے ہماری حکومت کی پالیسیاں تو بہت واضح ہونی چاہئیں اور جہاں کنٹرول لائن پر بھارتی فوجوں کی یکطرفہ اور بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری روکنے اور بھارت کو اس کا مسکت جواب دینے کیلئے جامع پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر مودی سرکار کے مسلم کش اقدامات کیخلاف مؤثر آواز اٹھانے کیلئے سفارتی ذرائع کو متحرک اور سرگرم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اقوام عالم میں بھارتی مودی سرکار کی پالیسیوں کیخلاف پیدا ہونیوالی سوچ کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ اسکے برعکس ہمارے حکمران آج بھی بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت اور کرکٹ کے احیاء کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان تو بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے شوق میں ممبئی میں ہونیوالی اپنی تضحیک کو بھی فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ وہ سری لنکا میں بھی بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کھیلنے کیلئے بے تابی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے جبکہ بھارتی میڈیا آج بھی سری لنکا میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے مودی سرکار کے انکار کی خبریں دے رہا ہے۔ بھارت کیلئے ہماری ایسی ہی ریشہ خطمی پالیسیوں کے باعث مودی سرکار کو ہماری کمزوریوں کا تاثر ملتا ہے اور اسکی ڈھٹائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں قومی غیرت‘ وقار اور آبرو پر کوئی حرف نہ آنے دیا جائے۔ وہ ہماری سلامتی کے درپے ہے تو ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کو دفاع وطن کی تیاریاں مکمل رکھنی چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ اقوام عالم کو بھی بھارتی سازشوں اور انکی بنیاد پر کی جانیوالی اسکی تیاریوں سے آگاہ رکھنا چاہیے تاکہ عالمی قیادتیں متفکر ہو کر بھارتی ہندو جنونیت سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات ٹال سکیں۔