’’اور اپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘

Dec 06, 2015

بریگیڈیئر (ر) محمود الحسن سید

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت دنیا کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹکتی رہی ہے کیونکہ ہمارا ملک واحد اسلامی ایٹمی سلطنت ہے نیز مغربی ممالک بھارت کو جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے مد مخالف ایک عالمی قوت کے طور پرکھڑا دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں او ر اس ضمن میں وہ ایٹمی قوت سے لیس پاکستان کو ایک بہت ہی بڑی روکاٹ تصور کرتے ہیں۔ مغربی ممالک در پردہ جنوبی ایشیا میں ابھی بھی نوآبادیاتی نظام قائم رکھ کر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔باالفاظ دیگر مغربی قوتیں چاہتی ہیں کہ ہم بھارت کی بالا دستی بے چوں چراں قبول کر لیں اور کشمیر کے بارے میں اپنے اصولی موقف سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائیں اور اپنے ایٹمی پروگرام کو خیر باد کہہ دیں۔1974 ء میں بھارت کی طرف سے بغیر کسی پیشیگی اطلاع کے ایٹمی دھماکہ کرنے کے فورا بعد FRANCE & BRITISH NUCLEAR FUELS کے نام کے ادارے نے پاکستان میں ایٹمی ری ایکٹر لگانے کے معاہدے کو فوری طور پر ختم کر دیا۔ اُس مشکل صورتحال میں یہ جناب ذوالفقار علی بھٹوکی عظیم شخصیت تھی جس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا ۔اس سلسلے میں انہوں نے پوری دنیا میں موجود ایٹمی سائنس دانوں کو ملک میں اکٹھا کیا۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ یہ وطن سے والہانہ محبت ہی تھی کہ وہ سائنس دان اپنی بے پناہ آسائشوں اوردولت کو ٹھکرا کر پاکستان آ گئے۔ پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اُنکے رفقانے شب وروز کی کاوشوں سے ملک میں ایٹمی صلاحیت کی بنیاد رکھی۔ اس نازک وقت پر باری تعالیٰ نے ہماری مدد فرمائی اور افغانستان میں روسی جارحیت اور ایران میں انقلابات جسے واقعات کی وجہ سے عالمی قوتیں ہمارے ایٹمی پروگرام میں ہونیوالی پیش رفت سے غافل رہیں اور ہمیں ایٹمی ہتھیار بنانے میں کسی بیرونی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن اُس کے بعد سے ہم پر مغربی ممالک کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کو CAP یعنی ختم کرنے کے بارے میں مسلسل دبائو ڈالا جا رہا ہے۔عالمی سطح پر ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے جو شک وشبہات پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
اول:یہ ہتھیار تخریب کاروں مثلاً ISIS یا القاعدہ کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیںَ
دوم:میزائل کی بڑی سطح پر پیداوار جو نزدیک اوردور حدف کے خلاف استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا تخریب کاروں کے قبضے میں جانے کا تعلق ہے تو ایک منظم اور اعلی پیشہ وارنہ صلاحیتوں کی حامل فوج کی موجودگی میں اس کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے اس خدشہ کا اظہار ہمارے ایٹمی پروگرام کیخلاف حرف پراپیگنڈہ ہے۔
جہاں تک ہمارے ازلی دشمن بھارت کا تعلق تو وہ پوری دنیا میںہتھیاروں کی خریداری کرنیوالے ممالک میں سر فہرست ہے اور اس طرح اسے ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان پرنمایاں برتری حاصل ہے لیکن موجودہ دور میں صرف اسلحے کی تعدادی برتری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے بلکہ اسلحے کے ساتھ ساتھ موزوںحکمت عملی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اس حوالے سے چند اہم یعنی عناصر درج ذیل ہیں۔
اول:ہتھیاروں، بارود اور فوجی سازوسامان کی عمدگی / دوم:آلات کی مدد سے رات کے اندھیرے میں کارروائی کرنے کی صلاحیت۔ سوم:دشمن کے بارے میں اور خاص طور پر اُسکی نقل و حمل پر نظر رکھنے کیلئے سیٹلائٹ کے ذریعے اطلاعات کی فراہمی۔ چہارم: میدان جنگ میں تیزی سے حرکت یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ کم سے کم وقت میں پہنچے کی سہولت۔ پنجم:اعلیٰ معیار کے ریڈار کی موجودگی۔ ششم:دشمن کے ہتھیاروں سے بچائو کی حکمت عملی کی استعداد
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ بھارت کی اعدادی اور ہتھیاروں کی برتری کا صرف کم فاصلے پر مار کرنیوالے میزائل اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے ہی کر سکتا ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت نے AGNI-IV کا تجربہ کیا ہے جو کہ ایٹمی ہتھیار سے 3500 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ مزید برآں مستقل میں AGNI-V کا تجربہ کیا جائیگا۔ جو ایٹمی ہتھیار کے ساتھ10,000(دس ہزار) کلومیٹر تک کے حدف کو تباہ کر سکے گا۔لیکن پوری دنیا اور خاص طور پر مغربی ممالک کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی طاقت دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں او ر یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ڈپلومیسی دراصل منافقت اور دھوکہ بازی کا دوسرا نام ہے۔ہمیں یہ بات مغربی ممالک کو واشگاف الفاظ میں بتا دینی چاہیے کہ پاکستان کے غیور عوام کسی بھی صورت میں نہ تو کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کریں گے اور نہ ہی علاقے میں بھارت کی بالا دستی اُن کو قبول ہو گی۔ نیز ہم بھارت کے ساتھ روائتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہو سکتے اور بھارتی وزیراعظم کے جارحانہ رویے کے مدنظر ہمیں قرآن پاک کے احکامات کیمطابق’’ اپنے گھوڑے تیار رکھنے ہیں‘‘۔ ہمیں دشمن پر اپنی دھاک بٹھائے رکھتی ہے اور یہ صرف ATOMIC DETERRANT یعنی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خوف کو قائم رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
قارئین! پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اپنی بقاء کو یقینی بنانے کیلئے معرض وجود میں آیا ہے۔ بھارت کی طرح ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔نہ ہی ہم کوئی طاقت اور ہتھیاروں کا اجارہ داری برقرار رکھنے کی خاطر ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اپنے وطن کا دفاع اوروطن کی بقاء ہمارے لیے سب سے پہلے ہے۔ اور یہی دفاع ہمیں بھارت کے مقابلے میں ہمارے ایٹمی پروگرام کا پیش خیمہ ہے اور اللہ کے فضل سے ہماری جری۔ شجاعت کا پیکر اور ایمان کی دولت آشنا پاک فوج اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کا ملکہ بھی رکھتی ہے۔اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو 1986 میں جنرل سندر جی کی فوجی ایکسائز BRASSTACKS پاکستان پر حملے کی صورت اختیارکر جاتی نیز یہ ہی بھارت کی جارحانہ COLD START STRATEGY کی ناکامیابی کی وجہ ہے۔ دراصل بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا اور وہ ہمیں نقصان پہچانے کے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ چنانچہ اپنی بقاء اور آزادی کے تحفظ کی خاطر ہمیںاپنی ایٹمی صلاحیت کو قائم اور فعال رکھنا ہماری مجبوری ہے۔

مزیدخبریں