نیوزی لینڈ کیخلاف T-20 سیریز کا کامیاب آغاز
پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال تھا کہ 20,20 میں ہماری ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پہلے میچ میں گرین شرٹس نے با آسانی کامیابی حاصل کی ہے۔ جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوںگے۔ دوسرے میچ کا نتیجہ بھی سامنے آچکا ہوگا۔ امید ہے کہ قومی ٹیم دوسرا 20,20 میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس سے لیکر وننگ شاٹ تک سب کچھ جیت لیا۔ ابتدا میں تین وکٹیں حاصل کر نے کے بعد پاکستانی بائولرز نے مہمان ٹیم کے بلے بازوں کو پویلین بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اہم وقت میں وکٹوں کے حصول میں کامیابی کی وجہ سے کیویز بڑا سکور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کورے اینڈرسن نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی باولرز کا مختصر وقت میں بھر پور مقابلہ کیا۔ سعد نسیم نے بائونڈری لائن پر شاندار کیچ کے ذریعے ان کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ لیوک رونچی اور مارٹن گپٹل نے بالترتیب35 اور 32 رنز اسکور کیے۔ ولیمسن، ڈیویچ اور ٹیلر جلد آوٹ ہونے کے باعث مہمان ٹیم بلے بازی میں توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ تین وکٹیں جلدی گرنے کے بعد کم بیک کا موقع نہ ملا۔ لیکن ولیمسن انور علی کا شکار بنے، وہ اندر آتی ہوئی گیند کو کھیلنے میں ناکام رہے اور ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ ڈیویچ بھی وکٹوں کے سامنے گیند کو بیٹ سے نہ کھیل سکے امپائر کی انگلی اٹھی اور وکٹ سہیل تنویر کے کھاتے میں لکھی گئی۔ نیوزی لینڈ کے سب اہم بلے باز اور امیدوں کے محور جارحانہ انداز سے کھیلنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے روزٹیلر اور دراز قد محمد عرفان کا آمنا سامنا ہوا۔ ٹیلر نے ایک چوکا تو لگایا لیکن وہ عرفان کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اور پر اعتماد انداز میں ان کا سامنا کرنے میں ناکام رہے۔ عمر اکمل نے ٹیلر کا کیچ لیکر انہیں پویلین بھیج دیا۔ نیوزی لینڈ کے آئوٹ ہونیوالے بلے باز اچھی بائولنگ پر آئوٹ ہوئے۔ انور علی جنہیں نئے گیند کا بائولر کہا جاتا ہے۔ کپتان نے انہیں صرف دو اور کروائے یہ سوالیہ نشان ہے۔ ایک گیند باز جو صرف نئے گیند کو ہی زیادہ، بہتر انداز میں کرواسکتا ہے۔ اسے تبدیل کرنے کی وجہ کہیں کچھ اور تو نہیں؟
136 رنز کے ہدف کے جواب میں پاکستان کا آغاز پر اعتماد تھا۔ اویس ضیا اور ان فارم سرفراز احمد نے اننگز کا آغاز کیا اور آزادانہ شاٹس کھیل کر مخالف ٹیم کو دبائو میں لے آئے۔ صرف تین وکٹوں کے نقصان پر ہدف حاصل کرنے سے یقینا بیٹنگ لائن میں موجود کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ سرفراز احمد مسلسل عمدہ بلے بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ قسمت ان کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے۔ وہ جدھر شاٹ کھیلتے ہیں۔ رنز مل رہے ہیں۔ ہوا میں کھیلیں یا گرائونڈ شاٹس ہر جگہ انہیں رنز کرنے اور اپنی مرضی سے شاٹس کھیلنے سے روکنے میں ناکام رہے۔ ان کی تکنیک اور بیٹنگ کے انداز سے ماہرین خوش نہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ رنز کر رہے ہیں اور ٹیم کی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ تکنیکی حوالے سے انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ قدموں کا استعمال کر کے رنز کرنے کا فارمولا ہر جگہ موثر ثابت نہیں ہوتا۔ فاسٹ بائولر کو سویپ شاٹ بھی ہر جگہ نہیں کھیلا جاسکتا لیکن یہاں وہ اس شان سے رنز حاصل کر رہے ہیں ، ان کی بیٹنگ میں آف سائیڈ پر رنز کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اس فارم کو کتنا لمبا لے کر چلتے ہیں۔ اچھی فارم کو لمبا کر کے ہی بلے باز تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔
ان کی حالیہ کامیابیوں کی سب سے بڑی وجہ قدرتی انداز سے کھیل پیش کرنا ہے۔ وہ گروانڈ میں آتے ساتھ ہی آزادانہ شاٹس کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ دبائو میں نہیں آتے، حالات کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتے۔ نتیجتاً انہیں رنز ملتے ہیں۔ ان کی وکٹ کیپنگ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ بلے بازی کے ساتھ ساتھ وکٹوں کے پیچھے بھی وہ تکنیکی لحاظ سے مضبوط نہیں ہیں۔ ماہرین اس پر بھی متفق ہیں کہ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں بھی انہیں بہت محنت کی ضرورت ہے، بعض ماہرین کی رائے میں تو وہ وکٹ کیپر نہیں بلکہ ایک اچھے ’’سٹاپر‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ جو مناسب انداز میں دائیں بائیں حرکت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تنقید اپنی جگہ لیکن عمدہ کارکردگی کا کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہئے۔ وہ اچھا کھیل رہے ہیں۔ ٹیم کے کام آرہے ہیں۔ دبائو میں بھی رنز کر رہے ہیں تو تعریف کے مستحق ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر سرفراز احمد کو اوپن ہی کروانی ہے تو پھر کامران اکمل کو اس پوزیشن پر مستقل موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ سرفراز احمد حالیہ کاکردگی کے بعد کامران اکمل کے لئے قومی ٹیم میں واپسی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ دیگر وکٹ کیپر بلے بازوں کو بھی سرفراز احمد کی جگہ حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی کاکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، عمر اکمل پر بھی اب دبائو زیادہ ہوگا۔ ماضی کے قریب میں انہیں یہ بہانہ مل جاتا تھا کہ وکٹ کیپنگ کے اضافی دبائو کی وجہ سے ان کی بیٹنگ متاثر ہوتی ہے۔ اب ٹیم ایک سپشلسٹ وکٹ کیپر کے ساتھ کھیل رہی ہے تو عمر اکمل کو بیٹنگ کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں سے انصاف کرتے ہوئے ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر بیٹنگ کے شعبے میں وہ ناکام رہے تو ٹیم میں جگہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ پہلے 20,20 میچ میں انہوں نے مختصر وقت میں اچھے شاٹس کھیلے اور تیزی سے رنز بھی سکور کیے۔ ناٹ آوٹ رہے۔ مستقبل میں بھی انہیں شاٹ سلیکشن اور کھیل کی طرف اپنی سوچ کو مثبت اور تعمیری رکھنا ہوگا۔ حارث سہیل زیادہ رنز نہ کرسکے لیکن انہیں مزید مواقع دینا ہوں گے۔ اچھا وقت اور مناسب بیٹنگ آرڈر پر صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیکر زیادہ بہتر نتائج لئے جاسکتے ہیں۔ پہلے میچ میں پاکستان نے کامیابی تو حاصل کرلی لیکن شاید آفریدی کی طرف سے آغاز میں مسلسل گیند بازوں کو بدلنے پر ماہرین تنقید بھی کر رہے ہیں۔ بالخصوص انور علی کو پورے اوورز نہ کروانا سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پھر بائولنگ میں وہ خود بھی شروع میں خراب بائولنگ کرتے رہے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید ان کی کمر ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ لائن و لینتھ پر بائولنگ نہ کرسکے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ پارٹنر شپ نہ لگنے کی وجہ سے وہ زیادہ زنز نہ کرسکے۔ کیویز بڑا سکور کرسکتے ہیں۔ آئندہ میچز میں وہ بہتر پرفارمنس دکھا سکتے ہیں۔ دراز قد محمد عرفان نیز گیند بازی اور لائن و لینتھ پر بائولنگ کرتے دکھائی دیئے۔ عالمی کپ تک ان کا فٹ رہنا پاکستان کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونیوالے عالمی کپ میں مخالف ٹیموں کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔انہیں استعمال کرنے اور فٹ رکھنے کے لئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ خود محمد عرفان کو بھی اپنی فٹنس پر بھر پور توجہ دینا ہوگی۔ ٹریننگ کے معاملے میں کوتاہی خود ان کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔ سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف عالمی کپ کے پیش نظر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس ماحول میں کھیل کر ورلڈکپ 2015ء کی زیادہ بہتر تیاری ہوسکتی ہے۔ ہار کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔ عالمی کپ کی تیاریوں میں چند میچز کی ناکامی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کامران اکمل بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سپورٹنگ پچوں پر کھیل کر نا صرف ہم اپنے بلے بازوں کو اچھی تیاری کا موقع دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنی اصل قوت کا اندازہ بھی ہوجائے گا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے 20,20 میچ میں کامیابی کے بعد پاکستان کی ٹیم اس فارمیٹ میں پچاس میچ جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے۔ گرین شرٹس نے مجموعی طور پر 84 ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچز کھیل کر پچاس میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے قومی ٹیم کی نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹونٹی میچ میں کامیابی کو خوش آئند قرار دیتے کہا ہے کہ اگر قومی ٹیم سیریز جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا ون ڈے سیریز پر مثبت اثر پڑے گا۔ قومی کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ حریف ٹیم کے خلاف کیھل کے تمام شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں۔ عالمی کپ ٹورنامنٹ سے قبل یہ آخری مکمل ون ڈے سیریز ہوگی لہذا حتمی ٹیم کے انتخاب کے لیے زیادہ سے زیادہ نوجوان کھلاڑی کو اسی سیریز میں آزمانا ہوگی۔ سابق فاسٹ باولر سرفراز نواز کا کہنا تھا کہ امارات میں کھیلی جانی والی سیریز کی ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی ہمیں صرف ورلڈ کپ کو مدنظر رکھ کر تیاری کرنی چاہیے۔ فاسٹ باولر محمد عرفان کو بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا تمام میچز میں اس کی شرکت ضروری نہیں ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ سابق چیف سلیکٹر محسن خان کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم کا مختصر فارمیٹ میں کوئی ثانی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹونٹی اور ایک روزہ انٹرنیشنل میچز میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ عالمی کپ میں مصباح الحق نے ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دینے ہیں لہذا انہیں مکمل سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ میں اب زیادہ تجربے کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک مضبوط ٹیم کی تشکیل کے لیے صرف ان کھلاڑی کو موقع دینا چاہیے جنہوں نے میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنی ہے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کی سیریز کا آغاز 8 دسمبر کو دبئی میں پہلے ایک روزہ میچ سے ہوگا۔ سیریز کا دوسرا میچ 12 دسمبر کو شارجہ کرکٹ سٹیڈیم ، تیسرا 14 دسمبر کوشارجہ کرکٹ سٹیڈیم، چوتھا 17 دسمبر کو شیخ زید سٹیڈیم ابوظہبی جبکہ پانچواں اور آخری میچ 19 دسمبر کو شیخ زید سٹیڈیم ابوظہبی میں کھیلا جائیگا۔