قیمت کا جھگڑا: کسانوں کا شوگر ملوں کے باہر پڑا گنا خراب ہونے کا امکان
لاہور (ندیم بسرا) محکمہ خوارک پنجاب سمیت کین کمشنر پنجاب کی جانب سے گنے کی قیمت خرید پر واضح موقف اختیار نہ کرنے کے باعث کسانوں کا گنا شوگر ملز کے باہر خراب ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔ کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لئے مڈل مین نے گنا اونے پونے داموں خریدنا شروع کر دیا، کسان بے بسی کی تصویر بن گئے۔ مختلف کسان تنظیموں کے نمائندوں نے موقف اختیا کیا ہے کہ گنے کی 153 روپے فی من امدادی قیمت ہرگز قبول نہیں ہے۔ حکومت پنجاب نے گنے کی امدادی قیمت 180روپے فی من مقرر کی تھی مگر سندھ حکومت کی طرف سے گنے کی قیمت کو کم کرنے کے اقدامات کے بعد پنجاب میںگنے کی قیمت کا فائنل تعین نہیں ہو رہا۔ اس بارے میں شوگر کین گروورز ایسوسی ایشن کے کنوئینر جاوید ملک نے نوائے وقت کو بتایا کہ 153 روپے فی من قیمت قبول نہیں کیونکہ یہ قیمت حکومت نے مقرر نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں یہی پالیسی رائج ہے کہ کسی بھی فصل کی قیمت اس کی کاشت سے قبل ہی مقرر کی جاتی ہے ہمارے ہاں جب فصل پکنے کے بعد کاٹ لی جاتی ہے تو اس کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ95 فیصد کاشتکار کا رقبہ 12 ایکڑ سے کم ہے اگر ان کی سال بھر کی کمائی اسی طرح سڑکوں پر پڑی خراب ہوگی تو کسان آئندہ سے سال کی فصلیں لگانے کی بجائے چھوٹی فصلیں دالیں، سبزیاں اور دیگر کاشت کرنا شروع کر دے گا۔ کسان بورڈ پاکستان کے نائب صدر سرفراز احمد خان نے بتایا کہ گذشتہ2 برس گنے کی قیمت170روپے فی من رہی۔ امسال شوگر ملوں کے نمائندگان اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور پیداوری لاگت بمعہ دیگر اخراجات کے قیمت 180 روپے فی من مقرر کی ہے۔ دریں صورت حال یہ ہے کہ نومبر2014کے آخری ایام میں ابھی کرشنگ سیزن شروع ہونے کو ہی تھا کہ حکومت سندھ نے اچانک 3 دسمبر 2014 کو عارضی طور پرگنے کی قیمت155روپے فی من مقرر کر دی اور یہ کہا کہ چینی کی قیمتوںکے سٹیک ہولڈرز کے مفاد کے مطابق مقرر نہ ہونے تک مذکورہ قیمت برقرار رہے گی جس کے نتیجے میں پنجاب کی شوگر ملوں نے3دسمبر2014کی شام سے گنے کی خریداری180روپے فی من کے حساب سے بند کردی کیونکہ سند ھ میں155روپے فی من کے مطابق سندھ کی شوگر ملوں کی چینی کی قیمت پنجاب کی شوگر ملوں کے مقابلے میں8روپے فی کلو کم ہو جائے گی ایسی صور ت میں مل مالکان کے موقف کے مطابق انہیں مالی نقصان اٹھاناپڑیگا، اس وقت ہزاروں ٹریکٹر ٹرالیاں، ٹرک گنے سے لدے کھڑے ہیں اور گنا خراب ہو رہا ہے۔ اختر فاروق میو،پروفیسر ڈاکٹر سردار فخر امام، عامر سلمان نے بتایا کہ اس صورت حال میں ابھی لاکھوں من گنا پنجاب کے کھیتوں میں ہے جس کی کٹائی کے بعد گندم کی کاشت ہو نی ہے جبکہ پنجاب میں ابھی گندم 75 فیصد کاشت ہو سکی ہے جوکہ30نومبر تک مکمل ہوناتھی25فیصد گندم کی کاشت گنے کی وجہ سے لیٹ ہونے کا قومی امکان ہے جس سے ملک میں گندم کی کم کاشت کے باعث خوراک کے بحران کا قومی امکان پیدا ہو گیا ہے۔