جب نابینا حضرات کے ساتھ بہت ڈھٹائی اور ظلم کے ساتھ پولیس دھینگا مشتی کر رہی تھی تو مجھے قرآن حکیم کے سیپارہ 30 کی تیسری سورة یاد آ رہی تھی۔ میں نے شاہی مسجد کے امام جید عالم دین مولانا عبدالخبیر آزاد سے بات کی۔ انہوں نے بہت اچھی طرح اس واقعے کی طرف اشارہ کیا کہ ایک نابینا صحابی ابن ام المقتومؓ رسول کریم رحمت اللعالمین حضرت محمد کی خدمت میں حاضر ہوا اور کوئی بات کرنا چاہی۔ حضور قریش کے بڑے بڑے لوگوں سے تبلیغ اسلام کے حوالے سے گفتگو فرما رہے تھے۔ انہوں نے توجہ نہ فرمائی۔ ایک نابینا صحابی کے لیے اپنے محبوب کی طرف سے ذرا سی بے نیازی کو بھی اللہ نے پسند نہ فرمایا اور اسی وقت یہ آیت اتری جس کا ترجمہ میں نے شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان کے ترجمے ”اکرم التراجم“ میں پڑھا۔ تو اب نابینا مسلمانوں پر اتنا ظلم اللہ کو کیسے برداشت ہو گا۔ ہم کیسے کیسے عذابوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ معافی بھی ہو اور تلافی بھی ہو۔ شہباز شریف اس حوالے سے خاطر خواہ اقدام کریں۔
حکومت سے گذارش ہے کہ وہ پولیس والوں کو بھی سفید چھڑی عطا کرے۔ سفید چھڑی اندھوں کو راستہ ہموار کرنے میں مدد دیتی ہے اور پولیس کی چھڑی لاٹھی بن جاتی ہے اور مسافروں کے لئے راستہ دشوار کرنے کی زحمت دیتی ہے۔ جب نابینا حضرات پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکے اور مکے مارے، کئی اندھے زمین پر گر گئے۔ انہیں اپنے ذلیل ہونے کا غم بھی ہو گا مگر یہ غم زیادہ تھا کہ ان کی سفید لاٹھیاں ٹوٹ گئیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ گئیں۔
یہ منظر پورے ملک اور پوری دنیا نے دیکھا۔ آج نابینوں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ میرے خیال میں پولیس ملازمین کا بھی قصور ہو گا مگر اصل قصور حکم دینے والے پولیس افسران کا ہے۔ افسران بالا بلکہ افسران تہ و بالا کا ہے۔ کیا ان میں سے ایک بھی پولیس افسر دل اور دماغ سے کام لینے والا نہ تھا۔ وہ صدر ممنون کے عملے کو صورتحال کے لئے بتاتا کہ نابینا حضرات راستے میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ صدر صاحب کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں۔ ایک بے اختیار صدر کے لئے اتنے پروٹوکول اور سکیورٹی کی کیا ضرورت تھی۔ کسی بھی حکمران اور افسر کے لئے ”روٹ“ لگانا کتنی بڑی زیادتی ہے۔ کیا وہ عوام کے درمیان سفر نہیں کر سکتے۔ لوگوں کو خطرہ نہیں ہے تو انہیں کیا خطرہ ہے؟ برطانیہ کی ملکہ لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر آ سکتی ہے۔ وہ ٹریفک سگنل کا بھی احترام کرتی ہے تو کیا ہمارے صدر ممنون اس سے مرتبے میں بڑے ہیں اور زیادہ بوڑھے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ اب تک صدر کی طرف سے کوئی بیان تک نہیں آیا۔ نابینا حضرات سے معذرت تک نہیں کی گئی کہ میری وجہ سے یہ حادثہ ہوا۔ ہم رسمی طور پر اقتدار میں آ کر بھی کتنے بے حس ہو جاتے ہیں۔ آئی جی پنجاب کو تو شاید اس واقعہ کی خبر ہی دیر سے ملی ہو گی۔ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نبیلہ غضنفر کا شکریہ کہ آئی جی پولیس کا بیان ذرا دیر سے بھی آ تو گیا ہے۔ سی سی پی او امین وینس اور ایس پی عمر ورک کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ کہاں تھے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کا تو نام بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ سنا ہے کہ وہ ماڈل ٹاﺅن میں قتل و غارت کے وقت موقع پر موجود تھے۔ وہ نابینا حضرات کی پٹائی مار کٹائی اور رسوائی کے وقت بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوں گے۔ یہ سوال ہم سے بار بار پوچھا گیا کہ بہت فرماں بردار اور مودب پولیس ملازمین کو حکم کون پولیس افسر دیتا ہے۔ کیونکہ پولیس ملازمین تو ملزموں کی طرح ان کے سامنے بھیڑ بکریاں ہوتے ہیں اور حکم ملتے ہی بھیڑیے اور درندے بن جاتے ہیں۔ ان کی حالت اپنے پولیس افسران کے سامنے ایسے ہی ہوتی ہے جس طرح ان کے سامنے نابینا حضرات کی حالت زار تھی۔
پولیس والے ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ہیں۔ پہلے یہ ملازمین حکمرانوں کے لئے اپنے افسران کے حکم پر استعمال ہوتے ہیں۔ پھر انہی کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ حکمران اس طرح لوگوں کے سامنے سرخرو ہوتے ہیں۔ چھوٹے پولیس ملازمین معطل ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے افسروں کو دعائیں دیتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد بحال کر دیے جاتے ہیں۔ آئندہ بھی ان سے کام لینا پڑتا ہے۔ پولیس افسران دونوں صورتوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کا کام صرف حکم دینا اور عیش کرنا ہے۔
کرنل (ر) ضرار سے بات ہوئی کہ ان کے کہے گئے معنی خیز لفظ ”سیاسی خانہ جنگی“ کو شاہی خانہ جنگی بنا دیا گیا ہے۔ جمہوری سیاست اور شاہی سیاست میں کوئی فرق نہی ہے۔ آج کل نواز شریف کو شہنشائے سیاست و جمہوریت کہا جا رہا ہے مگر عمران خان بھی کچھ کم نہیں ہے۔ شاہی اپوزیشن کا مکمل نمونہ دیکھنا ہو تو عمران کا طرز گفتگو اور طرز زیست دیکھا جائے۔ کرنل صاحب نے کہا کہ پولیس کی ٹریننگ فوج کی طرز پر کی جائے۔ فوج لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتی ہے تو لوگ راضی ہوتے ہیں۔ اس کے لئے پولیس کی بھرتی ٹریننگ اور پھر پوسٹنگ کے لئے سیاست اور حکومت کا عمل دخل بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس کو فوج جیسا کردار ادا کرنے کے لئے کرنل ضرار بہت زور دے رہے تھے۔ مگر میں انہیں بتاﺅں کہ کچھ سیاستدان اور حکمران پاک فوج کو پولیس بنا دینا چاہتے ہیں تاکہ فوج بھی پولیس کی طرح ان کی فرماں بردار بن جائے اور ان کے حکم کی منظر رہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ پولیس کا آئی جی بھی تو انسپکٹر جنرل ہوتا ہے۔ ڈی آئی جی ڈپٹی انسپکٹر جنرل ہوتا ہے۔ مگر ان میں جرنیلوں والی کوئی بات نہیں ہوتی۔ فوجی جرنیل تو ریاست کے ملازم ہیں۔ تو وہ حکومت کے ملازم کیوں نہیں ہیں؟
کسی بھی ملک میں کام چلانے والی پالیسیوں میں فوج کا کردار ہوتا ہے۔ پولیس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ امریکہ میں کوئی پالیسی پینٹاگان کے مشورے اور مرضی سے بنتی ہے۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ٹریننگ کے دوران چار پانچ ہوائی فائر کئے تھے۔ اس کے بعد ساری ملازمت کے دوران کوئی موقع نہیں آیا۔ ماڈل ٹاﺅن میں کونسے پولیس افسران تھے کہ ان کی ”ہوائی فائرنگ“ سے بھی 14 خواتین و حضرات قتل ہو گئے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پولیس میں کون ایسے لوگ ہیں جو خواہ مخواہ حکمرانوں کو بدنام کرتے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو بدنام کرنے والے لوگ تو بڑی تعداد میں پولیس کے اندر موجود رہے ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن کے واقعے کے بعد بدنام تو حکمران ہوئے ہیں۔ سنگین صورتحال اس کے بعد زیادہ شدید ہوئی ہے۔ حکمران اپنی منجی تھلے بھی ڈانگ پھیریں کہ وہاں کون کون چھپاہوا ہے۔ ڈانگ سوٹے سے نابینا حضرات کی بھی جس طرح خاطر تواضع کی گئی ہے تو اس کے مضمرات اور محرکات کیا ہیں۔ برادرم ناصر اقبال خان کہتے ہیں کہ تھانہ کلچر تو تبدیل نہیں ہوتا۔ مگر حکمرانوں کے ناجائز احکامات نہ ماننے والے پولیس افسران تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حکم ماننے اور نہ ماننے کے حوالے سے دونوں صورتوں میں بے چارے ملازمین ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ پولیس افسران کی اصلاح بہت ضروری ہے؟
لوگ نابینا حضرات کے ساتھ پولیس گردی سے بہت رنجیدہ ہو گئے اور معذور حضرات سے ہمدردی ہوئی۔ پولیس گردی شاید دہشت گردی کی کوئی قانونی شکل ہے۔ شہباز شریف قطر کے دورے سے واپس آئے تو نابینا حضرات کا ایک وفد ان سے ملا۔ نابینا حضرات کی فوری طور پر اس ملاقات کو کسی نے نہیں سراہا۔ البتہ شہبازشریف نے پولیس کی زیاد تی پر معذرت کی اور یہ بھی کہا کہ لاٹھی چارج کرنے والے پولیس ملازمین کو معطل بھی کر دیا گیا۔ مگر لاٹھی چارج کا حکم دینے والے پولیس افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے۔ معافی کے ساتھ تلافی بھی ہونا چاہئے۔
شہبازشریف نے قطر سے بھی اس واقعے کے لئے ضروری کارروائی کی ہدایات دی تھیں۔ اس ملاقات کے بعد لگتا ہے کہ جیسے نابینا حضرات کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا۔ تو اس روشنی میں مریم نواز کا یہ بیان درست ہے کہ اگر شہبازشریف اور نوازشریف یہاں ہوتے تو صورتحال اتنی سنگین نہ ہوتی۔ اب برادرم اسد اللہ غالب بتائیں کہ یہ بات حکمرانوں کے قریب ہونے کے لئے کتنی کافی ہے؟
شہبازشریف برادرم شعیب بن عزیز کے ساتھ میرے دس مرلے کے کوارٹر میں تشریف لائے تھے۔ میں سترہ گریڈ کا لیکچرار تھا اور پھر اسی کوارٹر میں 20 گریڈ کے پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوا۔ اب یہ کوارٹر میرے بیٹے کے نام ہے اور میں اس کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ شہبارشریف کے قریب ہونے کے لئے اس بات کا ذکر کر دینا کافی ہے، تو یہ ذکر میں نے کر دیا ہے۔ اب دیکھتا ہوں کہ حکمرانوں کی قربت سے مجھے کتنا فائدہ ملتا ہے؟ ورنہ میں برادرم اسد اللہ غالب سے پیشگی شکایت کر رہا ہوں کہ کچھ نہیں ہو گا۔ وہ مجھے کوئی اور طریقہ بتائیں کہ اس حوالے سے وہ بہت تجربہ کار ہیں۔