مکرمی! یہ ماجرا تو حکومت اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت کا تھالیکن احساس کا یہ قحط یہاں پرہی آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ امداد اور رقوم کے تقسیم کارکارندوں کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں بھی کسی کو گندم کی بوری بغیررشوت نہیں دے رہے اور اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے پندرہ سو تک فی کس وصول کئے جارہے ہیں اب گزشتہ تین ماہ سے دھرنوں اور جلسوں سے پورے ملک کو بند کردینے اور اس احتجاج پر اربوں روپے اڑادینے والوں کی بھی سنئے کہ انہوںنے بھی اس انسانی المیے کی شکل اختیارکرتے حادثے پر اپنے لب سی لئے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان دھرنوں نے آئی ڈی پیز اور تھرکے ایشو سے توجہ ہٹادی ہے تو غلط نہ ہوگا۔آخر میں خود تھر کے باسیوں کے اپنے اوپر ظلم کی داستان بھی پڑھیے کہ تھر کے ڈومیسائل پر ایم بی بی ایس کرنے والوں کی تعداد تو ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے مگر یہ لوگ خود اپنے علاقے میں خدمات سرانجام دینے کو تیار نہیں اور تھر میں ڈاکٹروں کی 166آسامیاں خالی پڑی ہیں اور تھر کی 6تحصیلوں میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر دستیاب ہے۔ (قاسم علی)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024