اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراءاور خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں (تاکہ انکے ذریعہ عوام اور غرباءبھی درست ہو جائیں ) تو وہ اس بستی میں نافرمانی کر تے ہیں ۔ پس ان پر ہمارا فرمان (عذاب) واجب ہو جاتا ہے ۔ پھر ہم اس بستی کو بالکل مسمار کر دیتے ہیں یہ آیات مبارکہ اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں نازل فرمائیں ۔ ان آیات مبارکہ کا ترجمہ میں نے ایف اے کی اسلامیات کی کتاب میں پڑھا تھا۔ اور جب جب ہمارے ملک میں امرا اور خوشحال لوگ عام لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، غریبوں کے منہ کے نوالے چھینتے ہیں ۔ انکے گھروں کو آگ لگاتے ہیں ۔ مسکینوں کا مال ہڑپ کرتے ہیں۔ جب کوئی ماں بھوک کے مارے معصوم بچوں سمیت نہر میں کود جاتی ہے ، جب کوئی خوشحال درندہ کسی ننھی کلی کو مسلتا ہے ، جب کوئی بیٹی انصاف نہ ملنے پر خود کو آگ لگا لیتی ہے ۔ جب امرا اور خوشحال لوگ سر عام لوگوں پر جبرو ظلم کی داستانیں رقم کرتے ہیں ۔ جب مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور سلاخوں کے پیچھے معصوموں کے سر پر چاندی آ جاتی ہے ۔ جب اپنا حق مانگنے والوں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور جب نابینا افراد کو دھکے دے کر ڈنڈے سہنے پڑتے ہیں ۔۔۔ تب تب میری روح کانپ جاتی ہے ، اور یہ آیات میرے ذہن میں بار بار کسی ٹیپ ریکارڈر کی طرح چلنے لگتی ہیں کہ یہ امرا اور خوشحال لوگوں کی نافرمانیوں کے عذاب کہیں ہمیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں ۔ کل کا واقعہ جسے واقعہ نہیں سانحہ کہا جائے تو کم نہیں ۔ وہ معذور افراد جن کی عزت اور خدمت کرنا ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے ۔ جن کو تکلیف پہنچانے کا خیال ہی بہت مجرمانہ ہے انسان کبھی ایسے لوگوں پر ظلم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کل کہیں میں اس مقام پر نہ کھڑا ہوں ۔ کہیں خدا مجھے ایسی اولاد نہ دے دے ۔ کہیں میں شفاعت سے محروم نہ کر دیا جاوں ۔ ان معصوم لوگوں کو پنجاب پولیس نے جس بے دردی سے گھسیٹا اور پیٹا یقینا حیوانیت بھی اس پر شرمندہ ہوئی ہو گی ۔ یہ لوگ تو اپنا درد لے کرا ٓئے تھے ۔ احتجاج ان کا بنیادی حق تھا۔ایک دن حضور نبی کریم ﷺ مسجد نبوی شریف میں تشریف فرما تھے کہ ایک دیوانی عورت آئی اور آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا میرے ساتھ چلیں صحابہ کرام نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ تو دیوانی ہے آ پ ﷺ نے اس بات کی پرواہ نہ کی اور اسکے ساتھ چل پڑے وہ آپﷺ کو مدینہ کے بازاروں میں گھماتی رہی ۔ اور آخر میں ایک جگہ زمیں پر دھوپ میں بٹھا دیا۔ آپ ﷺنے اسکی عرض سنی ۔ اسکی حاجت پوری کی اور وہ آپﷺ کو دعائیں دیتی چلی گئی ۔ جب ایک دیوانی کی حاجت یہ اہمیت رکھتی ہے کے دو جہانوں کے سردار اسکی عرض کو دھوپ میں زمیں پر بیٹھ کر سنیں اور پوری کریں ۔یہ نابینا افراد تو بہترین دماغ رکھنے والے پڑھے لکھے افراد تھے ۔ اور اپنے جائز مطالبات کے حصول کیلئے جانے کہاں کہاں سے دھکے کھاتے آئے تھے ۔ جانے تعلیم حاصل کرنے کیلئے ان لوگوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ انکے والدین کو کن مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ہو گا ۔ اس لیے کہ آج وہ در در کی ٹھوکریں کھائیں اور حاکم وقت کے ڈنڈے سہیں۔ اک خبر اور جو نظروں سے گزری کہ ان معصوموں کے ساتھ یہ سلوک اس لیے کیا گیا کہ وہاں سے کسی وی آئی پی کو گزرنا تھا ، ہمارا دین تو یہ ہے کہ حضرت عمر بن العاصؒؒؒ نے مصر کو فتح کیا تو آ پ نے ایک میدان میں پڑاو کیا ۔ اس میدان میں بعدمیں مصر کا شہر فساط آباد کیا گیا۔ جب آپ کوچ کرنے لگے تو آپکے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ آپ نے قصداً اپنا خیمہ وہیں لگا چھوڑ دیا کہیں اس کبوتر کو تکلیف نہ ہو۔ اک فوج کا سپہ سالار جس نے اک پورا شہر فتح کرلیا مگر اسکا پروٹوکول یہ کہ اس کیلئے اک کبوتر بھی کسی وی ٓئی پی سے کم نہیں۔ مگر ہمارے ہاں کسی کے راستہ خالی کروانے کیلئے معصوم نا بیناوں کو بے دردی سے پیٹا گیا۔ بے چارے اپنا راستہ خود تلاش نہیں کر سکتے ، جنھوں نے اس دنیا کا کچھ بھی نہیں دیکھا انہوں نے آج حاکم وقت کا ظلم تو ضرور دیکھا ہو گا۔ دنیا بھر میں خصوصی افراد کو بہت ہی خاص سمجھا جاتا ہے ۔ انکو عزت دی جاتی ہے ۔ کئی جگہوں پر سفید چھڑی والوں کیلئے راستے الگ بنائے جاتے ہیں ۔ ہالز میں انکے بیٹھنے کیلئے الگ سیٹیں لگائی جاتی ہیں ۔ اگر سڑک پار کرتے وقت کوئی نابینا شخص اور اسکی سفید چھڑی کسی کو نظر آجاتی ہے تو اسکے پیچھے ٹریفک جام ہو جاتی ہے ۔ پوری مغربی دنیا میں لوگوں نے یہ نظارہ بارہا دیکھا سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم کو کھڑا ہو کر سفر کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کیلئے کوئی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا ۔ مگر یہی لوگ کسی معذور شخص کو کبھی بھی کھڑے ہو کر سفر نہیں کرنے دیتے ۔ وہاں انکو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔ انکو نوکریاں دی جاتی ہیں ۔ انکی معذوری کو معذوری نہیں سمجھا جاتا ۔ انکے زرخیز ذہنوں سے ملک و قوم کی ترقی میں حصہ لیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں انہی معذور لوگوں کو خاص لوگوں کے عالمی دن پر ڈنڈے اور دھکے کھانے پڑتے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ یہ حکمران طبقہ ، یہ اشرافیہ جو نافرمانیوں پر اُتر آئے ہیں یہ لوگ ذہنی معذور اور اپاہج ہیں ۔ اساتذہ اگر احتجاج کرتے ہیں ۔ تو انکو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز اپنے حق کی آواز بلند کرتے ہیں تو اس آواز کو جبر سے دبایا جاتا ہے ۔ نرسیں اگر سڑکوں پر نکلتیں تو انکے عورت ہونے کا لحاظ کیے بغیر انکو گھسیٹا اور پیٹا جاتا ہے ۔ تاجر ہو ں طلبہ ،ڈاکٹر یا عام عوام انکے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے ۔ اور ہم چند دن افسوس کرتے ہیں مذمت کرتے ہیں اور پھر اسکو بھول کر اپنے اپنے کام کاج میں لگ جاتے ہیں ۔ آج مجھے شرم ٓتی ہے کہ ہم انسانی حقوق کے علمبردار دین کے پیروکار ہیں۔
مذمت سے زیادہ عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کی تربیت کی جائے ۔ انکو معاشرتی اخلاقیات سکھائی جائیں۔ا ٓداب کی تعلیم دی جائے۔ انکو انسان بنایا جائے انھیں انسانیت سکھائی جائے ۔ انہیں اسلام کی اعلیٰ اقدار سکھائی جائیں۔ سول سوسائٹی کے متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔ وہ پولیس کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرے ۔ اور تسلسل کے ساتھ اس آواز کو بلند کرتی رہے ۔ہو سکتا ہے کہ سوئے ہوئے ارکان پارلیمنٹ جاگ جائیں اور محکمہ پولیس کی بہتری کے لیے کوئی بل پاس کریں ۔ اگر یہ ظلم ختم نہ ہوا تو مجھے خوف ہے خدا اس بستی کو مسمار کرنے کا اراداہ کرے تو کہیں اس کی لپیٹ میں ہم سب نہ آجائیں۔