صدر اوبامہ نے نئی افغان حکمت عملی کا اعلان کر دیا ہے۔اس مقام تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے طویل مشاورت کی تاکہ کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کی جا سکے جس کے تحت وہ افغانستان میں اپنے اہداف جلد از جلد حاصل کر کے اس کام کو مکمل کر سکیں۔ انہوں نے تیس ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم جاری کیا ہے جس سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائیگی جبکہ نیٹو کے پینتالیس ہزار فوجی اسکے علاوہ ہیں۔ صدر اوبامہ پر امید ہیں کہ امریکہ تین سال کے عرصے میں ساری کارروائی مکمل کر کے افغانستان سے نکل جائیگا۔
طالبان نے چونکہ یہ جنگ جیت لی ہے لہذا وہ ’’شکست خوردہ امریکیوں اور اسکے اتحادیوں سے اس وقت تک مذاکرات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جب تک غیر ملکی قابضین افغانستان سے نکل جانے کا اعلان نہیں کرتے۔‘‘بہتر یہی ہے کہ امریکہ مزید بدنامی سے بچنے کیلئے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا نظام الاوقات جاری کرے۔فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے پس پردہ یہی حکمت عملی کارفرما نظر آتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کیا جائے اور آبادی اور رابطے کے مراکز پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے فضائی طاقت سے طالبان کو نشانہ بناسکیں۔اس حکمت عملی سے بھارت کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا کیونکہ اس نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور دوسری طرف وہاں جاسوسی کے مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں سے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کیخلاف تخریبی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعدانہوں نے چین اور امریکہ کے روابط پر اپنے تحفظات کا اظہار کیاا ور امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانیوالی غیر معمولی اہمیت کو امریکہ کی جانب سے بھارت کیساتھ کئے جانیوالے معاہدوں سے انحراف قرار دیتے ہوئے اپنے عالمی مفادات کیلئے خطرہ قرار دیا ۔انڈین ایکسپریس کے بقول ‘ بھارت کی دانست میں امریکہ پاکستان کوجنوبی ایشاء کے اہم مرکز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت کو افغانستان کے پیچیدہ معاملے میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے حالانکہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی بڑی اہمیت ہے ۔ انہوں نے سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے معاہدے پر دستخط کئے جس کا واضح ہدف ’’چین کی ابھرتی ہوئی عسکری اور اقتصادی طاقت کو روکنا اور اسلامی انتہا پسندی ‘‘کوختم کرنا تھا لیکن افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو ہی شکست نہیں ہوئی بلکہ انکی شکست کا مطلب بھارت کے جنوبی ایشیاء میں توسیع پسندانہ عزائم کی شکست ہے۔ ہم اس شکست کو ’’شکست عظیم‘‘ اور طالبان کی فتح کو ’’فتح مبین ‘‘ کہنے میں حق بجانب ہیں۔یہ ایک یادگار لمحہ ہے جس نے تاریخ کا رخ موڑ نے کیساتھ ساتھ پاکستان کو بے شمار مواقع عطا کئے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیاء کے ابھرتے ہوئے طاقت کے مراکز‘ کابل اور بیجنگ‘ کے درمیان کلیدی کردار ادا کر سکے۔
دنیاکی اکلوتی سپر پاور کیلئے یہ بات ہضم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ انہیں بے سروساماں افغانی طالبان نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔لہذا اوبامہ نے بیڈن (Biden)کے پیش کردہ منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی منظوری دیدی اوراسلحہ ساز اداروں کے مطالبات تسلیم کرلئے ہیں جس سے دفاعی بجٹ میں سے انہیں سات سو بلین ڈالر کے فنڈ ملتے رہیں گے جبکہ ان کے فیلڈ کمانڈروں کی رائے ہے کہ :’’جنگ کو نیا رخ دے کر فتح حاصل کرنا لازمی ہے کیونکہ شکست سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی دنیا بھر میںرسوائی ہو گی اور طالبان کی فتح سے افغانستان میں بنیاد پرستوں کی حکومت قائم ہو جائیگی جس کے نتیجے میں پاکستان ’ خلیج کے علاقے اور وسطی ایشیائی ممالک عدم استحکام کا شکار ہو جائینگے۔‘‘ یہی وہ غلط سوچ ہے کہ جس کے سبب امریکہ آج ناکامیوں سے دوچار ہے ۔
امریکہ کی یہ پالیسی در حقیقت افغانستان سے انخلاء کی پالیسی ہیـ۔ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نکل جانے سے پورے علاقے میں امن کی فضا قائم ہوجائیگی۔بھارتی اور یہودی لابی کی خواہش ہے کہ قابض افواج کے تعاون سے وہ خطے میں جاسوسی اور سازشوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ صدر اوبامہ اسی سوچ کے دبائو میں طالبان اور القاعدہ کی کمر توڑنا چاہتے ہیں جس کا بنیادی مقصد بااثر لابیوں کے مفادات کا تحفظ ہے لیکن اسکے نتیجے میں پاکستان پر دبائو بڑھے گااور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔لہذا بہترین راستہ یہی ہے کہ غیر ملکی قابضین افغانستان سے فوری طور پر نکل جائیں کیونکہ یہ غیر ملکی قبضہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا خطے میں قیام امن کا خواب کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔
پاکستان کی سیاسی فضا بڑی حد تک پریشان کن ہے لیکن یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ قومی سلامتی کے ضامن اداروں نے اپنی اہمیت تسلیم کرا لی ہے اور وہ ہمارے دشمنوں کی سازشوں کا توڑ کرنے کی مکمل طاقت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اندرونی طور پر سلامتی اور معاشرتی امن کو تباہ کرنے کیلئے سی آئی اے ‘ را‘ موساد اور راما(CIA, RAW. Mossad and RAMA) کی مشترکہ کارروائیوںنے نہایت گھنائونا کردار ادا کیا ہے۔دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال سے عوام میں جو بددلی پھیل رہی ہے اس پر قابو پانے میں سیاسی حکومت قطعی طور پرناکام ہو چکی ہے حقیقت یہ ہے کہ عوام کا اب جمہوری حکومت سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ صدر زرداری پارلیمنٹ کو خودمختاری دینے کی بجائے سویلین آمریت قائم رکھنے کے خواہاں ہیں۔ عوام کی بے چینی جب بڑھتی ہے تو قومی سلامتی کے محافظ ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔عدلیہ نے وکلاء ‘ججوں‘ ذرائع ابلاغ اور سیاسی حزب اختلاف کی مدد سے اپنی آزادی اورخودمختار حیثیت قائم کرلی ہے اور جب سیاسی حکومت نے بیرونی دبائو اور خطرات کیخلاف پیش رفت نہ کی تو پاکستان کی مسلح افواج نے آگے بڑھ کر حالات کو سنبھالا دیا۔یہ مسلح افواج ہی ہیں جنہوں نے کیری لوگر بل؛ جوہری پھیلائو؛ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے؛ سی آئی اے اور را کی پاکستانی معاملات میں مداخلت پر قومی امنگوں کی ترجمانی کی اور قوم کویہ حوصلہ افزا پیغام دیا کہ ’’قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے پاکستان کی مسلح افواج بخوبی آگاہ ہیںاور وہ ان خطرات سے نمٹنے اور انہیں شکست دینے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو کام ایک خود مختار پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے تھاوہ ہماری مسلح افواج نے اپنے سر لے لیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’طاقت کا مرکز اسلام آباد سے جی ایچ کیو کی طرف جھک گیا ہے۔یہ ایسی صورتحال ہے جس نے صدر زرداری پر دبائو بڑھا دیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 58-2b میں کی گئی 17ویں ترمیم کے تحت اختیارات پارلیمنٹ کوواپس لوٹا دیں۔
پاکستانی فوج نے سوات‘ دیر‘ باجوڑ اور وزیرستان میں بھاری کامیابی حاصل کر لی ہے اور یہ ایسی کامیابی ہے جو جنرل مشرف مختار کل ہونے کے باوجود حاصل نہ کر سکے۔ یہ کامیابی پاکستانی عوام کے مسلح افواج پر اعتماد کا واضح ثبوت ہے۔ یقیناً یہی عوامی طاقت پارلیمنٹ کوخود مختار اور با اختیار ادارہ بنانے کا موجب بنے گی اور پھر طاقت کا مرکز پارلیمنٹ کو منتقل ہو جائے گا۔اس طرح پارلیمنٹ کی طاقت سے لیس پاکستان اس قابل ہو سکے گا کہ وہ بیجنگ اور کابل کے درمیان مرکزی رابطہ کی حیثیت حاصل کر سکے گا اور بھارت کو افغانستان کے پیچیدہ راستوں میں بھٹکتا چھوڑ دیگاـ۔
امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے سبب پاکستان اور چین کے تعلقات پر کچھ اثر نہیں پڑیگا۔ چین اور پاکستان کے تعلقات میں گہرائی اور منطق ہے کیونکہ ان تعلقات کی بنیاد خطے کے سیاسی حقائق پر مبنی ہے۔ چین نے اس منطق کو پروان چڑھانے میں دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اعلی کردار ادا کیا ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کا مرکز دونوں ممالک کے عوام کا ایک دوسرے پر اعتماد ہے۔ چین کی پالیسی کا بنیادی نقطہ تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ امن ‘ باہمی تعاون اوردوست اور دشمن کی تفریق کے بغیرسب کے ساتھ روابط کا قیام ہے ۔اس پالیسی نے چین کی عظمت واضح ہوتی ہے۔چین اس وقت اقتصادی وعسکری میدان میں جادوئی انداز سے ابھر رہا ہے جوکہ امریکہ کے بعددوسرا اہم ملک ہے۔اس طرح عالمی اقتصادی و عسکری طاقت کا مرکز یورو۔ اٹلانٹک کے خطے سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔
چینی اپنے آپکو ایک مہذب قوم کہلوانا پسند کرتے ہیں اور یہی انکی شناخت ہے۔چین جب اپنے تعاون پر مبنی ارادوں کا اظہار کرتا ہے اور عسکری چیلنج کو رد کرتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تزویراتی حقائق کو ترجیح دیتا ہے۔غیر توسیع پسندانہ اہداف کے حصول کیلئے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ایشیاء کے تمام ممالک کیساتھ قریبی تعلقات استوار کئے جائیں۔ اس لحاظ سے ایشیاء کا ابھرنا امریکی مقابلے کی دو ڑ میں ابھرتی ہوئی نئی دنیا خصوصأ ایشیائی ممالک کا کڑا امتحان ہوگا۔بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے پاک چین تعلقات اس لحاظ سے مثالی نوعیت کے ہیں کہ دونوں ممالک مختلف نظریاتی اور معاشرتی اقدار کے حامل ہیں۔ اسکے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات باہمی اعتماد‘ بھروسہ‘ایک دوسرے کیلئے نیک خواہشات اور دوستی کی اعلی مثال ہیں۔اگربرادرانہ تعلقات کا یہ تاریخی بندھن قائم رہے تو ملکی‘ علاقائی اور عالمی حالات چاہے جتنی بھی شدت اختیار کرجائیں دونوں ممالک کی دوستی کے فروغ کو روکا نہیں جا سکتا۔
بھارت اس تزویراتی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور امریکی استبداد کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے جواسکے توسیع پسندانہ اور استعماری عزائم کی عکاسی کرتا ہے اور اسکے یہ عزائم افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں میں دفن ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک پسپا ہوتی ہوئی طاقت ہے جو امریکی اور نیٹو کیساتھ ساتھ افغانستان میں ناکام ہو چکی ہے۔اسکی عسکری صلاحیتیں بھی محدود ہو چکی ہیں کیونکہ وہ روس کے حربی نظام سے امریکی حربی نظام کی طرف’’تبدیلی کے خطرناک دور‘‘ سے گزررہی ہیں۔آئندہ عشرے تک بھارت اسی طرح کمزور ہی رہے گا اسلئے وہ پاک چین تعلقات کیلئے کسی خطرے کا سبب ہر گز نہیں بن سکتا۔ قربانیوں ‘ دکھوںاور غلطیوں کے باوجودقدرت نے پاکستانی قوم کو ایسے مواقع عطا کئے ہیںجو جارحانہ سفارتکاری اور بروقت سیاسی اقدامات کی مدد سے متحرک اورمربوط پالیسی اور بہترین منصوبہ بندی مرتب کرتے ہوئے قوم کو موجودہ خطرناک صورتحال سے نکال سکتے ہیں۔ قومی سلامتی و وقار کے ضامن اداروں مثلاً عدلیہ ‘ مسلح افواج اور ذرائع ابلاغ نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے اصلاح احوال میں جرأت مندانہ کردار ادا کیا ہے۔
اسی طرح ہماری خارجہ پالیسی ساز‘ جن کی حیثیت ’اولین دفاعی لائن‘ کی ہوتی ہے ایک مضبوط پالیسی مرتب کرنے کے ذمہ دارہیں اور قدرت کے عطا کردہ مواقع سے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانے کیلئے غیر معمولی کردار اداکر سکتے ہیں۔