’’ مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا ‘‘ …( 2)

پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ ایک طرح سے انہی واقعات کا تسلسل ہے جو قومی اسمبلی سے شروع ہوئے تھے۔
عرض کیا تھا کہ سیاست اور حکومت کی بنیاد اخلاقیات پرہوتی ہے لیکن ہماری جماعتوں نے اسی کی دہائی میں مل کر اخلاقیات کا جس طرح سے جنازہ نکالا اس نے عام آدمی کا سیاسی عمل سے یقین اٹھا دیا جس کے نتیجے میں عام آدمی اور ووٹر جمہوری عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ مخصوص طبقات اور لوگ ہی جا کر ووٹ ڈالا کرتے اور نتائج سے پہلے ہی سب کو پتا ہوتا تھا کہ جس کو نکالا ہے اسے واپس لانے کے لئے توا لیکشن کا جھنجھٹ نہیں پالا جا رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) شہری علاقوں میں مقبولیت کے ساتھ ملک بھر کے ہر حصے میں بہتر اتحادی رکھتی تھی۔ ان کے دور میں انفراسٹریکچر کے بہت زیادہ منصوبے بنے جو زیادہ تر مختصر مدت میں ( سوائے موٹروے کے) پورے ہو جاتے تھے۔ ان دکھائی دینے والے منصوبوں نے شہری اور کاروباری طبقے کے حق میں معاشی پالیسز کے باعث کاروباری طبقات میں اس سیاسی جماعت کی ساکھ بڑھائی۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی جو غریب علاقوں اور لوگوں میں زیادہ اپیل رکھتی تھی، کا اثرورسوخ دیہی علاقوں میں زیادہ رہا جبکہ ان کے پاس پاکستان بھر سے جیتنے والے امیدوار بھی دستیاب تھے۔ محترمہ بے نظر بھٹو شہید کو چاروں صوبوں کی زنجیر اسی تناظر میں کہا جاتا تھا۔ ان دونوں جماعتوں کو بھی ان دیکھی زنجیروں کا سامنا رہا اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ باری باری حکومتیں قائم کرتے رہے۔ ایک مرتبہ مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی اکثریت ملی جس میں میاں نواز شریف کے حوالے سے '' امیر المومنین'' بننے کی خواہش آپ نے سن رکھی ہو گی کہ وہ اپنے سامنے سب کو سرنگوں رکھنے کا پکا بندوبست چاہتے تھے۔ وقت گزرتا رہا دونوں جماعتوں نے 85 19کے بعد سے باری باری مختلف صورتوں میں پاکستانی عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھائی لیکن کچھ خاص ہو نہیں سکا کہ بڑے منصوبوں کی شفافیت پر سنگین نوعیت کے الزام لگانے اور سوالات اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس وقت میڈیا کی یہ صورتحال نہیں تھی جو آج ہے صرف ایک سرکاری ٹی وی اور چند اخبارات ہوا کرتے تھے جن کے باعث ان ادوار کے معاملات پر عوام کو زیادہ آگہی نہیں ہوئی۔ ایک، دو تجربات کے بعد ان سیاسی جماعتوں نے ان دیکھی زنجیروں اور سرحدوں کے ساتھ بہت حد تک سمجھوتہ کرلیا اور تھوڑا بہت لیپاپوتی کا کام ہوتا رہا لیکن اس سب میں 13 کروڑپھر اٹھارہ کروڑ اور اب بائیس کروڑ سے تجاوز کرتی مخلوق خدا کی اجتماعی زندگیوں کو اصل معنوں میں آسان بنانے کی ذمہ داری کو ثانوی بنا دیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس کی ابتدا روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے سے ہوئی، سرکاری ملازمین اور کسانوں وغیرہ کو کسی حد تک آسانی پہنچانے کی شہرت بنانے میں کامیاب رہی لیکن اس دوران اس پر سرے محل، ٹن پرسنٹ اور سینٹ پرسنیٹ جیسے الزامات لگائے گئے۔ دونوں جماعتوں کے حامی اپنی قیادتوں پر لگائے گئے کریشن کے الزامات کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے ۔ وجہ ؟
کچھ لوگ تو ان جماعتوں کے براہ راست بینیفشری تھے اور باقیوں کو بتایا جاتا تھا کہ یہ سب مخالفین کا پراپیگنڈہ ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔ ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں میڈیا کو بے شمار آزادیاں ملیں، نئے ٹی وی چینلز، اخبارات وغیرہ کے آنے سے اطلاعات کا ایک نیا طوفان لوگوں کے سامنے تھا۔ سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی سچائی سب نے کیمرے کی آنکھ سے براہ راست دیکھ لی۔ سیاسی عمل میں شریک بچے کچھے عام لوگوں میں مایوسی پھیلنی شروع ہوئی کہ لیڈر شپ تو جھوٹ بولتی رہی ہے، اپنے اثاثے بناتی رہی لیکن عوام کی اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ان کی مجبوریاں اور بہانے آڑے آتے ہیں۔ تب دو پارٹی سسٹم تھا اور کوئی تیسرا مناسب متبادل دستیاب نہیں تھا اسی لئے پرویز مشرف کی موجودگی میں ہی جمہوریت کی بحالی کے نام پر سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ عمران خان نے بھی روایتی سیاست دانوں کی طرح کبھی ایک تو کبھی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد بنایا لیکن اس کی خواہش اور منشا کے مطابق اسے سیاسی منظر نامے میں جگہ نہیں ملی۔ بالآخر عوام سمیت کھیل کے دیگر فریقین نے بھی سیاست میں تیسرے کھلاڑی کی موجودگی کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے پذیرائی بخشنا شروع کی۔ الیکٹرانک میڈیا تو موجود تھا ہی روایتی اطلاعات کے شعبے کو چاروں شانے چت کرنے والے سوشل میڈیا کی آمد نے کھیل کے ضابطے بدلنے شروع کئے اس نئے میڈیم کی اہمیت کو عمران خان نے سب سے پہلے جان لیا تھا۔ مایوس، سیاسی عمل سے باہر بیٹھے عوام یہ ساری صورتحال دیکھتے رہے پر تبھی 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں نے محسوس کیا کہ 74 سال سے پاکستان ایک ہی جگہ پر کھڑا ہے ۔ یہ نوجوان جنہیں امید اور خواب درکار تھے ان کو عمران خان کی گفتگو میں وہ سارے نعرے دلنشین لگے جو اس عمر میں لگا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہی اس نسل کا پسندیدہ میڈیم تھا اور اس میڈیم پر موجود لوگ خود بھی زیادہ تر اسی عمر کے ہیں جو خواب دیکھنے اور ان میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ملاپ نے ان کو جوڑنا شروع کیا۔ بیرون ملک پاکستانی اور پوش علاقوں میں بسنے والے لوگ پہلے ہی عمران خان کے ساتھ منسلک ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ان سب لوگوں نے کچھ اور''لوگوں'' کے ساتھ مل کر 2018 ء میں عمران خان کو بالآخر اقتدار کی مسند تک پہنچا دیا تھا۔ اس کے بعد کی کہانی بہت مختصر ہے کہ حقیقی دنیا میں منشور پر عمل درآمد کی مشکلات ، نا تجربہ کاری اور مکس اچار ساتھیوں کی کارکردگی نے آہستہ آہستہ عوام کو جھنجھوڑنا شروع کیا۔ تاہم کرونا جیسی عالمی وبا میں عمران خان کی حکومت نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور معاملات بہر حال کسی طور چل رہے تھے پھر 2022 ء آگیا۔ تحریک عدم اعتماد کی بات شروع ہوئی۔ اس کے بعد کے واقعات سے تو مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کسی سرکس میں آ پہنچے ہیں جہاں روز کوئی نیا شعبدہ باز اپنی جیب سے یاہیٹ سے ایک نیا "کبوتر" نکالتا ہے اور پھر اسے عوام کے سامنے ہاتھ میں لہرانا شروع کر دیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ستر اور اسی کی دہائی میں پانچ سالہ بچے کی" رسم مسلمانی "ادا کرتے وقت کہا جاتا تھا۔ ''بیٹا وہ دیکھو چڑیا'' اور نیچے سے…!!
ہمارا جمہوریت اور قوانین پر بطور قوم بالکل یقین نہیں ہے بلکہ قانون شکنی عزت اور سٹیٹس کا سمبل ہے۔اسی لئے روز کسی نا کسی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر کاغذ کا ایک پرزہ لہراتا ہے اور پھر سب ایک نئے تماشے میں گم ہو جاتے ہیں کوئی اخلاقیات اور قانون ان کو ہار ماننے کی توفیق نہیں دیتا۔نتیجتاً اس تنازع میں عدالت کو بھی کھینچ لیا جاتا ہے پھر سب مل کر خوب دھول اڑاتے ہیں ،جب گرد بیٹھتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ سب نے اپنے ہاتھ ،منہ اور کپڑے گندے کرلئے ہیں ۔ جمہور اور پاکستان ڈالر اور پٹرول کی ریس دیکھ رہے ہیں کہ پہلے اڑھائی سو کو کون پہنچتا ہے؟ ضمنی انتخابات میں قائم ہونیوالے ماحول نے پنجاب کی خاموش اکثریت کو بھی عمران خان کے ساتھ ملا دیا کہ وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اسے امریکا نے نکالا ہے اور یہ کہ ''کلا جنا ہک پاسے تے باقی سارے ہک پاسے'' عمران خان نے بہر حال نظام کے اس تالاب میں ایک بڑا پتھر پھینک دیا ہے، عام آدمی اب موجودہ سیاسی صورتحال پر متفکر بھی ہے اور بڑے غور سے دیکھ بھی رہا ہے۔ سیاسی منظر نامہ بتدیل ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے سندھ میں بالخصوص ایک نئی صورتحال جنم لینے کو ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل اتحادی اب عمران کی دو تہائی اکثریت کو روکنے کی پوری کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے حصے کا کیک بھی محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ گیم دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ اللہ کرے کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان کی بہتری کی کوئی صورتحال نکلے‘ رہے جمہور اور جمہوریت …تو بقول شاعر
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
(منیر نیازی)
اس سے زیادہ ذہنی افلاس اور جمہوریت پر عدم اعتماد کیا ہوسکتا ہے کہ ہماری کوئی بھی سیاسی جماعت عوامی مینڈیٹ کی اصل گنتی کو اخلاق کے معیار پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔گویا پہلے بندوں کو تولنے سے انکار تھا تو اب ہم گننے سے بھی گئے۔( ختم شد )