چین کا بے تاج بادشاہ (2 )
جب اسے فطرت امر کرنے کے لئے تیار کر رہی تھی ۔کنفیوشیس کے معاصر تعلیمی نصاب میں عام طور پر مصوری ،خطاطی ،تاریخ ،ادب و فنون ،موسیقی ،تہذیبی و ثقافتی روایات کی پاسداری جیسے مضامین شامل تھے ۔اس نے ان تما مضامین کو ازبر کیا حتیٰ کہ تغیر و تبدل نامی کتاب THE BOOK OR CHNGE تو اس حد تک بار بار یاد کی کہ باوجود بلکہ وہ بانس کے چھلکوں پر لکھ کر مضبوط ترین چمڑے سے جلد بند کی گئی تھی پھر اس کا چمڑا تین بار پھٹ گیا ۔کنفیوشیس نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو ریاست LU پر جو ڈیوک حکمران تھا اس کے اشرافیہ کے تین خاندان تھے جن کے سربراہ VISCOUNTشمار ہوئے تھے اور لوLU کی نوکر شاہی میں وراثت کے اختیارات کے حامل تھے اور انہیں عوام پر وزیر جیسے حقوق حاصل ہوتے جبکہ لنک حضرات وزیر تعمیرا ت تھے اور شو خاندان وزیر جنگ کا فریضہ انجام دیتا تھا جب ان مختلف سماجی طبقات میں باہمی منافرت عروج پر تھی تو کنفیوشیس اپنی انسانیت دوست تعلیمات سے اپنی حیثیت کافی حد تک مستحکم کر چکا تھا لہذا انہیں 501ق م قبل مسیح میں نسبتاً ایک چھوٹے شہر /صوبے کا گورنر بنا دیا گیا تاکہ ان کے وہ ملکی سطح پر وزیر انصاف /جرائم کے خاتمے کے وزیر کے عہدے پر متعین بھی رہا مگر وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا سلسل برقرار رکھنے اور اپنی تعلیمات کے پرچار پر دیگر ریاستوں کے عوام کو اپنا پیرو کار اور ہمنوا بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف نظر آتا ہے ۔کیونکہ وہ اکثر ان ریاستوں کا سفر کرتا رہتا تھا اب ہمارے بنیادی سوال یعنی اس کی تعلیمات اور ان کی معاشرتی و عمرانی ماحول سے مطابقت کے متعلق ہے جو یقیناً ہمارے موقر قارئین کی زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے ۔اس کی تعلیمات کا تذکرہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ابتدا میں ہم نے جو سوال اٹھایا تھا کہ کیا وہ کسی مذہب مسلک فلسفہ یا نظریہ حیات کا موجد تھا یا نہیں؟ نو اس سلسلے میں چند معروضات اور بعدا زاں اس کی تعلیمات کا ذکر اس کے اپنے آبائی وطن چین میں یہ سوال کئی با بحث و مباحثے کا باعث بنا کہ آیا ۔کنفیوشیسکی تعلیمات یا کنفیوشیسزم CONFUCIANISM فلسفہ ہے ،یا کوئی نظریہ ہے ؟ تاہم یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا گیا ہے کہ اس کی تعلیمات میں مذکورہ بالا تینوں دبستانوں کے عناصر یکجا ہو گئے۔تاہم تقابل ادیان یا مختلف مذاہب کی جملہ صفات کے پیش نظرانہیں ہمارے دینی علوم کے ماہر مذہبی رہنما ماننے سے تو قاصر ہیں اس کی وجہ ان کی چینی اور خاص کر کنفیوشیزم کا کم مطالعہ غالباً ان کے لئے مشکل بنا ہے وگرنہ ان کی تعلیمات کے لئے ہیںجو ہو بہو ہمارے صوفیائے کرام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ 18ویں صدی میں تو کنفیوشیزم کا اس حد تک شہر ہ تھا کہ 1715 میں گیارہویں پوپ کلیمنٹ X1 نے اسے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے چینی کیتھولک عیسائیوں کو کنفوشیزم کی تعلیمات سے یکسر علیحدگی اختیار کرنے کا فتویٰ دیا ۔P.6CONFUCIUS BY MEHER MCARTHUP ( جار ی ہے)
اس طرح جب اس کے پیروکاروں نے زلزلوں ،طوفانوں اور دیگر ارضی و سماوی آفات کے نزول کے سبب کی بابت پوچھا تو اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
صاحب افلاک اپنے بندوں (خاص کر حکمرانوں) کے اعمال دیکھتا رہتا ہے کہ حکمرانوں نے زمینی نظام اور قدریں تہس نہس کر دی ہیںتو وہ زلزلے طوفان اور دیگر سماوی آفات نازل فرماتا ہے ۔کنفیوشیس کی تعلیمات کی کلیدی کتاب اگریزی میں ANALECTS جسے چینی زبان میں لن یو LUNYU کہا جاتا ہے جو یقیناً اس کے پیروکار نے کی اس کی وفات کے بعد مرتب کیا ۔اس کتاب کے بین ابواب ہیں جن میں چیدہ چیدہ موضوعات حمدیہ نظمیں THE BOOK OF SONGS (SHIJING ) odes / تاریخ کی تدوین ( THE BOOK OF SHUJING ) HISTORY اور لوLU ریاست کی تاریخ Annals The spring a Autum اس کلیدی کتاب کی تعلیمات کے بارے عام تاثر یہی ہے کہ اس نے خود کتب مرتب کرنے کی بجائے اپنے دیگر ہمعصر گوتم بدھ اور سقراط کی طرح چلتے پھرتے اپے پیروکاروں کو یہ تعلیمات دیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اسے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس کا تھا کہ مطالعے کا بے حد شوق تھا اور اس کا خیال تھا کہ مطالعے سے ہی انسان کے فکرو ذہن میں وسعت اور کشادگی آتی ہے اور اسی سے وہ ایک مضبوط کردار کی تعمیر و تشکیل کر سکتا ہے ۔ہندو رشیوں اور عیسائی راہبوں کے مقابلے میں اس کی تعلیمات میں انسان ہو کر جانوروں اور درندوں میں رہنا کسی طرح بھی احسن نہیں بلکہ انسان کو انسانوں کے درمیان رہ کر ان کی بھلائی ،فلاح و بہبود اور ان کے دکھ سکھ کا ساتھی بننا چاہئے اس کا زور ذاتی کردار میں اعلیٰ صفات (تقویٰ) اور حکومتی اخلاقیات کی درستگی کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات وروایات کی تصحیح و تزئین ہ بلکہ اگر کہا جائے کہ اس کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ عدل و انصاف پرمبنی صالح قیادت کی حکمرانی کی قدریں ہیں تو بے جا نہ ہوگا ،اسی لئے صدیوں تک چین کی سیاسی و اقتصادی پیش رفت کا سہرا چین کے اسی بے تاج بادشاہ اور اس کی انسان دوست اور انسانیت نواز تعلیمات پر سجایا جا تارہا ہے ۔
البتہ گذشتہ صدری کی چھٹی دہائی 1966-67 ء جب چین میں ہر طرف یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ جو نقش کہیں تم کو نظر آئے مٹا دو اس وقت کی قیادت نے کنفیوشیس کو بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور انقلاب مخالف قرار دیکر انقلابی جنونیوں نے اس کے قدیم آثار کو نقصان پہنچایا ۔اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ و تفسیر پر پابندی لگا دی گئی ۔تاہم زمانے کے نرالے انداز ہیں کہ صداقت خود کو منوا لیتی ہے ۔آج کنفیوشیزم کا شہرہ چین کے ساتھ ساتھ جاپان ،کوریا،ویت نام ،انڈونیشیا،ملائشیا تک پھیلا ہوا ہے اور خود حکومت چین نے پہلا کنفیوشیس انسٹیٹیوٹ سیول جنوبی کوریا میں 2004 میں سرکار طور پر قائم کیا گیا جس میں چینی زبان اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کا اہتمام کیا گیا ہے غالباً چینی حکومت کے سامنے برٹش کونسل ،گوئٹے انسٹیٹیوٹ اور جاپان فائونڈیشن جیسے کئی ایک ماڈل موجود تھے لہذا وہ جو چینی کہتے ہیں ۔’’چینی سوشلزم چین کے زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ‘‘ تواب چینی حکومت نے بھی اپنے تہذیبی و ثقافتی وجود کے اظہار اور فروغ کے لئے فیصلہ کیا ہے کہوہ دنیا بھر میں ایسے ہی ایک ہزار کنفیوشیس انسٹیٹیوٹ قائم کرے گی جن میں تین سو سے زائد قائم کئے جا چکے ہیں۔پاکستان میں بھی نمل( یونیورسٹی) اسلام آباد اور کراچی یونیورسٹی میں یہ انسٹیٹیوٹ متحرک اور مستعد ہیں اور اب تیسرا ایسا ہی انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں قائم کیا جا رہا ہے ،ہمارا آخری سوال تھا کہ اس پیش رفت میں ہمارے لئے کیا اس عبرت یا مقام غور ہے ۔واضح رہے کہ کنفیوشیزم کا زیادہ تر زور عدل و انصاف پر مبنی اور عوامی فلاح و بہبود کی حکمت عملیاں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ چین کی ترقی کا راز ہر فرد کو اس کی تعلیم اور صلاحیت کے مطابق منصب اور اعزازیہ عطا کرتا ہے لہذا اگر ہمارے ارباب اختیار و اقتدار بھی تاریخ سے سبق لیں اور اپنے ہی خاندانی افراد خوشامدیوں اور خوش چینیوں کی بجائے علم و صلاحیت عدل و انصاف اور مساوی مواقع کے اصول اپنائیں تو اس میں ان کے لئے دین و دنیا کی بھلائی ہے اور جہاں عوام ہر دم ان سے لگن اور پیار کا اظہار کریں گے تو وہ بھی ان کے دلوں پ راج کرنے میں کسی سازش کا شکار نہیں ہوں گے۔صاحب افلاک انہیں باربارمواقعے دے کر آزما رہا ہے مگر ان کی جبلی مجبوریاں انہیں خود احتسابی اور عدل و انصاف کی طرف توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دے رہیں لہذا کاتب تقدیر شاید آخری بار اتمام حجت کر رہا ہے ورنہ دارالحکومت کی پندرہ لاکھ سے زائد آبادی کی نمائندگی وہ ایک اجنبی خاتون کو کیوں نیلام کرتے ؟