تم کو معلوم نہیں غم حسین ؓکی حقیقت ورنہ !!
بجھایا اک دیا شہہ نے بہتر ہوگئے روشن
اندھیرا خود پریشاں ھے بجھا کیا تھا جلا کیا ھے
سید شباب اہل الجنۃ سیدنا امام حسین ؓ اور ان کے اصحاب کی مظلومانہ درد انگیز شہادت کا واقعہ کچھ ایسا نہی جس کو بھلایا جاسکے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انسان اپنے دل میں ایک درد محسوس کرنے پر مجبور ھے- ان شہداء کی شہادت پر نہ صرف زمین و آسمان بلکہ جنات تک روئے اور یہاں تک کہ جنگل کے جانور تک متاثر ہوئے، کون انسان یا مسلمان ایسا ھے جو ان کا درد محسوس نہ کرے یا کسی زمانے میں بھول جائے لیکن شہید کربلا کی مقدس روح درد و غم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کے بجائے ان سعید روحوں کو فکر و عمل کی دعوت دیتی ھے جو ان کے درد میں شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں انکی خاموش مگر زندہ جاوید زبان مبارک مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصد عظیم کی دعوت دیتی ھے جس کے لئے سیدنا امام حسین ؓ بیچین ہوکر مدینے سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے پر مجبور تھے اور جس مقصد کے لئے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اہل بیت کو قربان کرکے خود بھی خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے۔ سیدنا امام حسین کے واقعہ کربلا کو اول تا آخر دیکھنے سے انکی عظیم شہادت کا جو مقصد واضح ہوتا ھے وہ یہ کہ کتاب و سنت کے قانون کو صحیح طور پر رواج دینا- اسلام کے نظام عدل کو از سر نو قائم کرنا، اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلہ میں مسلسل جہاد اور حق کے مقابلہ میں باطل کی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا، حق کے لئے اپنی جان و مال اولاد سب قربان کردینا- خوف و ہراس اور مصیبت و مشقت میں نہ گھبرانا اور ہمہ وقت اللہ کی یاد اور اسی پر توکل و شکر کرنا- زیر نظر تحریر اسی نیت سے لکھی گئی ھے کہ آج ہم بھی موجودہ پرفتن دور میں اس عظیم واقعہ سے سبق حاصل کرکے شہداء کربلا کے درج بالا مقاصد کو انکے نقش قدم پر انجام دینے کے لئے تیار ہوں اور ان کے اخلاق فاضلہ اور اخلاق حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں آج بھی شہدائ کربلا کی ارواح مبارکہ ہم سے ان ہی مقاصد کا مطالبہ کرتی ہیں، لیکن جب انسان جارہا ہو ایک طرف اور دیکھے دوسری طرف تو لازماّ خطرہ میں پڑ جائے گا کسی چیز سے ٹکرا کر تباہ و برباد ہو جائے گا یا کسی کھڈے یا گہری کھائی میں گر جائے گا - ہم جارھے ہیں عاقبت کی طرف اور نظر ھے دنیا کی طرف- انسان کی عمر کی مدت سال بہ سال بلکہ دم بدم گزرتی جارہی ھے اسلئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم نے اپنی عاقبت کو بگاڑا یا سنوارا ؟
کل ہوس اس طرح سے ترغیب دیتی تھی مجھے
خوب ملک روس اور کیا سرزمین طوس ھے
گر میسر ہو تو کیا عشرت سے کیجئے زندگی
اس طرف آواز طبل ادھر سدائے کوس ھے
صبح سے تاشام چلتا ہو مئے گل گوں کا دور
شب ہوئی تو ماہر ویوں سے کنار و بوس ھے
سنتے ہی عبرت یہ بولی اک تماشہ بیں تجھے
چل دکھاوّں تو جو قید آز کا معبوس ھے
لے گئی یکبارگی گور غریباں کی طرف
جس جگہ جان تمنا ہر طرح مایوس ھے
مرقدیں دو تین دکھلا کر لگی کہنے مجھے
یہ سکندر ھے یہ دارا ھے یہ کیکاوّس ھے
پوچھ تو ان سے کہ جاہ و حشمت دنیا سے آج
کچھ بھی ان کے پاس غیراز حسرت و افسوس ھے۔
اس زندگی کے بارے میں بروز قیامت سوال ہونے والا ھے
" کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ اس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرلیتا ( اور مزید یہ کہ ) تمھارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا-" یہ ڈرانے والا کون تھا ؟ اس لمبی عمر سے کیا مراد ھے؟