ہفتہ، 7 محرم الحرام، 1444ھ، 6اگست 2022 ئ

یوم استحصال کشمیر کے موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب تک کشمیریوں کو آزادی نہیں مل جاتی‘ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دوسری جانب بھارت نے یاسین ملک کی رہائی کیلئے مودی کو خط لکھنے پر مشعال ملک کا ٹویٹر اکاﺅنٹ بلاک کر دیا۔
کشمیر کی آزادی کیلئے گزشتہ 75 سال سے قوم کو یہی طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہم ہر پل کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ سوائے مذمتی بیانات اور کشمیریوں کی حالت زار پر رسمی تشویش سے کبھی بات آگے بڑھی ہو۔ جو بھارت حریت رہنما یٰسین ملک کی رہائی کیلئے خط لکھنے پر انکی اہلیہ کا ٹویٹر اکاﺅنٹ بلاک کر سکتا ہے‘ اس سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کشمیر کو آسانی سے ہمارے حوالے کر دیگا۔ اگر وہ ایسا کرنے پر راضی ہوتا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بہت پہلے عمل درآمد ہو چکا ہوتا اور کشمیری آج آزاد فضا میں سانس لے رہے ہوتے۔ بلاول بھٹو سمیت تمام سیاست دان اب ایسے سیاسی بیانات سے اپنی دکانداری چمکانا چھوڑ دیں۔ انکے یہ رسمی بیانات صرف 5 اگست یا پانچ فروری کے موقع پر ہی سامنے آتے ہیں ورنہ سال بھر انہیں کشمیریوں کی حالت زار کی خبر تک نہیں ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت روزانہ کی بنیاد پر قتل عام کررہا ہے‘ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ آج 1095 روز ہو چکے ہیں بھارت نے غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کا فوجی محاصرہ کیا ہوا ہے۔جب تک ہم اقوام متحدہ پر سفارتی دباﺅ نہیں ڈال کر اسے منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے آمادہ نہیں کریں گے اور عالمی برادری کے مردہ ضمیر کو نہیں جھنجھوڑیں گے‘ کشمیر کو ہم بھارت کے خونی پنجے سے آزاد نہیں کرا سکتے۔ مذمتی بیانات سے نہ قوم کو مطمئن کیا جا سکتا ہے اور نہ کشمیریوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ کشمیری عوام تو خود عملی طور پر گزشتہ 75 سال سے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری شہ رگ کی آزادی کیلئے اپنی جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ صرف بیانات کی حد تک انکے ساتھ کھڑے ہیں۔
٭....٭....٭
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں نیا ہٹلر پیدا نہیں ہونے دینگے۔
ہٹلر نے جو کرنا تھا‘ وہ تو کرکے چلا گیا‘ اسکے ظلم کی داستان دنیا آج بھی یاد کرتی ہے لیکن موجودہ دور کے ازخود بنے ہٹلروں کے مظالم کے سامنے تو ہٹلر اول کے ظلم و ستم ہیچ نظر آتے ہیں۔ اس نے تو یہودیوں کا جھٹکا کرکے اس دنیا و مافیہا سے ہی انکی خلاصی کرادی تھی مگر آج کے ہٹلرز ثانی قوم کو مرنے دیتے ہیں نہ جینے۔ نئی امیدوں کے لالی پاپ ضرور دیتے ہیںجو بغیر کینڈی کے ہوتا ہے۔بیانات اور طفل تسلیوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جاتی ہیں عملی طور پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت مہنگائی نے عوام کا عملاً جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ معمولی سبزی بھی عوام کو دو سو سے کم کی نہیں مل رہی۔ غریب دال پر گزارا کر لیتا تھا‘ اب وہ بھی اسکی دسترس میں نہیں رہی۔ رہی بات گوشت کی وہ تو غریب غرباءکو صرف بکرا عید پر ہی نصیب ہوتا ہے ‘ عام دنوں میں تو وہ قصاب کی دکان کی طرف دیکھ کر ہی یہ تسلی کرلیتے ہیں کہ یہاں گوشت ملتا ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی ہے نہ تن پر کپڑا‘ سر پر چھت نہیں ‘ سونے کو جگہ نہیں‘ ایسے میں بے چارے بہت سے دل برداشتہ ہو کر خاندان سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جناب احسن اقبال صاحب! اب آپ خود ہی بتائیں کہ وہ ہٹلر بہتر تھا جس نے لوگوں کی زندگی کا صفایا کردیا تھا یا آج کے ہٹلر اچھے ہیں۔ جو اپنی قوم کو تڑپا تڑپا کر مار رہے ہیں۔ بے شک عمران خان کو پاکستان کا ہٹلر بننے نہ دیں‘ آپ منصوبہ بندی کے وزیر ہیں‘ قوم کیلئے کوئی ایسا منصوبہ تیار کریں کہ آج کے ازخود بنے ہٹلروںسے قوم کی جان چھوٹ جائے۔
٭....٭....٭
سندھ اور بلوچستان میں مون سون کی ہونیوالی بارشوں نے 62 سالہ ریکارڈ ٹوڑدیا۔
یہ کونسی نئی بات ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال مون سون کے موسم میں کئی ریکارڈ بنتے اور کئی ٹوٹتے ہیں۔ سندھ ہو یا بلوچستان‘ پنجاب میں بھی بارشوں نے اپنے کئی قائم شدہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ ہم ریکارڈ توڑنے کی بات کر رہے ہیں‘ بارشوں نے تو لوگوں کے مکان تک توڑ دیئے ہیں جبکہ جانی اور مالی نقصان کے الگ ریکارڈ ہیں۔ اس سب کے باوجود مجال ہے کہ کسی بھی انتظامیہ کی طرف سے بارشوں یا سیلاب سے بچاﺅ کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے ہوں۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے ہر سال مون سون سے قبل ہی بارشوں اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دے دی جاتی ہے ‘ اسکے باوجود عوام کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ ہائے ری قسمت! ایک وقت تھا جب گھٹا چڑھتی تھی تو گھروں میں پکوان چڑھائے جاتے تھے۔ اب گھٹا دیکھتے ہی لوگ اپنا سامان محفوظ ٹھکانوں اور گھروں کے مچانوں پر چڑھانا شروع کر دیتے ہیں کہ کیا پتہ باہر برستی بارش کب گھر کے اندر داخل ہو جائے۔ یہ ہمارے کرتا دھرتاﺅں کی ”مہربانیوں“ کا ہی نتیجہ ہے کہ مون سون جیسا خوبصورت موسم اب پوری قوم کیلئے وبال جان بن چکا ہے۔ بچے بڑے بارش میں نہانا پسند کرتے تھے‘ برسات کے موسم کو انجوائے کرتے تھے‘ پکنک پوائنٹس کا رخ کیا کرتے تھے‘ اب لوگ خود نہیں‘ بلکہ بارش اور سیلاب ہی مل کر انہیں نہلا ڈالتے ہیںاور ایسا نہلاتے ہیں کہ بعض کیلئے ان کا آخری غسل ثابت ہوتا ہے۔ رہی بات ریکارڈ ٹوٹنے کی تو جناب! شاید ہمارا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مون سون میں سب سے زیادہ ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ ہمارے کرتا دھرتاﺅں کی کرم نوازیوں کا کم از کم یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک نہ ایک دن ہمارے ٹوٹتے بنتے ریکارڈ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنی جگہ ضرور بنا لیں گے۔
٭....٭....٭
جاپان میں حیرت انگیز ساحل جہاں کا پانی ہی آئینہ ہے۔
یہ ساحل چی چی ہوگاما ہا کے نام سے جانا جاتا ہے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ یہاں کا ہر منظر آئینے کے عکس کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو جاپان کی ہر بات ہی نرالی نظر آتی ہے۔ 1945ءمیں تباہ ہونے کے باوجود اس قوم نے ہمت نہ ہاری اور خود کو نہ صرف معاشی طور پر بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ ساحل کے پانی کا اتنا شفاف ہونا کہ وہ آئینہ کے طور پر استعمال کیا جائے‘ یہ ترقی یافتہ جاپان میں ہی ہو سکتا ہے جہاں ٹریفک اور دوسری آلودگیوں کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں کے حکمران خود کو عوام کا حقیقی خادم تصور کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے کئی منصوبے تیار کئے جاتے ہیں‘ کاغذی کارروائی عروج پر دکھائی دیتی ہے لیکن عملی مظاہرہ صفر ہی نظر آتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ زیر زمین پانی انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا جبکہ نہروں اور دریاﺅں کا پانی بھارت نے غصب کیا ہوا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں ٹینکر مافیا کا راج ہے‘ جس سے ہماری سرکار نمٹنے سے قاصر ہے۔ سرکار کی جانب سے جو پانی دستیاب ہے‘ وہ پینے کے قابل نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کئی امراض عام ہیں اس لئے قوم اب منزل واٹر خرید کر پینے پر مجبور ہے۔ ماہرین کا خدشہ درست نظر آتاہے کہ آنے والے وقت میں قوم کو نہانے کیلئے بھی پانی خریدنا پڑیگا۔ جاپان میں صاف پانی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں کے حکمرانوں کی نیت صاف ہے جو اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے نیک نیتی سے کام کرتے ہیں اس لئے قدرت بھی انہیں ایسی نعمتوں سے نوازتی رہتی ہے۔