یوم ِاستحصالِ کشمیر اور عالمی اداروں کا کردار
بھارت کے غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں بھارتی غیر قانونی اقدامات کے تین سال مکمل ہونے پر گزشتہ روز مقبوضہ وادی سمیت پوری دنیا میں یومِ استحصال منایا گیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر وادی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں جن میں بھارتی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی اور بھارتی حکومت کے مذکورہ اقدامات کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی /5 اگست یومِ استحصال اور یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ حکومت نے سرکاری طور پر جبکہ غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے طور پر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کیں جبکہ کشمیریوں کی حمایت میں ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔ ٹریفک ایک منٹ کے لیے روک دی گئی۔ سائرن بجائے گئے اوراس کے فوراً بعد ریڈیو پاکستان ، پاکستان ٹیلی وژن سمیت الیکٹرانک میڈیا چیلنز پر پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے قومی ترانے بجائے گئے۔ مختلف شاہراہوں پر کشمیریوں کی حالتِ زار اور کشمیر پر قابض افواج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے پوسٹرزآویزاں اور بل بورڈز نصب کیے گئے۔ حکومت پاکستان نے پاکستانی قوم کی طرف سے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی عوام ان کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد اور بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی حکومت نے /5 اگست کو یوم استحصال اور یوم سیاہ منانے کی کل جماعتی حریت کانفرنس کی طرف سے کی جانے والی اپیل کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں پکڑ دھکڑ اور محاصرے و تلاشی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ مختلف علاقوں میں بھارتی فورسز نے گھر گھر جا کر تلاشی آپریشن شروع کر دیا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔
آج سے تین سال قبل /5 اگست 2019ءکو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور طاقت کے زور پر کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس نے اس غیر قانونی اقدام کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نہ صرف پائمال اور خطے کے امن و امان کو تباہی کی جانب دھکیل دیا بلکہ بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے جنیوا کنونشن کی بھی صریح خلاف ورزی کی ۔ اپنے اس غیر قانونی اقدام کے بعد بھارتی حکومت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا۔ نوجوان کشمیریوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا،انہیں غیر قانونی حراست میں لے کر عقوبت خانوں میں اپنی مشقِ ستم کا نشانہ بنایا۔ کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ کشمیری رہنماﺅں کو بھی گرفتار کر کے بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے اور انہیں عدالتوں سے مرضی کی سزائیں دلوائیں۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر کے عوام کو ان کے گھروں کے اندر محصور کر دیا۔ بیمار اور معذور و بزرگ افراد کو علاج معالجہ اور دوائی دارو سے محروم کر دیا گیا۔ اپنے حق میں نعرے لگانے اور جلوس نکالنے والوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ پیلٹ گنز سے ان کی بینائی ضائع کر دی گئی۔ عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ میڈیا اور انٹر نیٹ کی سہولت ختم کر کے مقبوضہ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ و تعلق بھی ختم کر دیا گیا تاکہ ان پر ہونے والے ظلم کی آواز بیرونی دنیا تک نہ پہنچ پائے۔گویا پوری وادی کو جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیر کے وہ رہنما جو حکومت کے ایک عرصہ تک حامی رہے تھے انہیں بھی معاف نہیں کیا گیا اور پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ بھارتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندوں کو بھی مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ معروف بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی پچھلے سال بھارتی حکومت کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر شہادت کی منزل سے سرفراز ہوئے۔ بھارت یہ اقدامات محض وادی¿ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے ہی نہیں کر رہا دراصل وہ ہندو توا کے تحت اکھنڈ بھارت کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ وہ پورے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ وہ کشمیری مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم کر کے ان کی نسل کشی کرنے جا رہا ہے۔ اس نے مقبوضہ وادی میں کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے غیر کشمیریوں خصوصاً ہندوﺅں کو وہاں منتقل کر رہا ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت ختم کر کے وہاں ہندوﺅں کو آباد کیا جائے۔ حد بندی کمشن بھارتی حکومت کے انہی مکروہ عزائم کا عکاس ہے۔ غیر کشمیریوں کو وہاں کا ڈومیسائل جاری کیا جا رہا ہے تاکہ وہ وہاں رہائش کے ساتھ ساتھ نوکریاں بھی حاصل کر سکیں۔ انہیں زمین خریدنے کی اجازت دینے کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس کے پیشِ نظر کشمیر میں ہونے والے ریفرنڈم پر اثرانداز ہونا اور اپنے من مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہے جو ہندو انتہا پسندوں کے دیرینہ عزائم ہیں اور حکومت انہی انتہا پسندوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کی اہلِ کشمیر اور پاکستان نے بھرپور مذمت کی ہے اور اس کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ کشمیر کی حیثیت ایک متنازعہ علاقہ کی ہے جسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے اور مختلف قراردادوں کے ذریعے اس کے حل کی غرض سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے اور استصواب رائے سے ان کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے لیکن بھارتی حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کا جائز حق دینا تو ایک طرف انہیں بنیادی انسانی حقوق سے ہی محروم رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کے تحت بھارتی مقبوضہ کشمیر کو ہندوستانی ریاستوں کے دیگر باشندوں کے برعکس الگ اور مخصوص حیثیت حاصل تھی۔ جسے مودی حکومت نے ایک صدارتی حکم نامے میں منسوخ کر دیا ہے۔ بھارت کی فسطائی حکومت جو رجبر سے کشمیریوں کو اپنے زیر کنٹرول لانے کی جو کوششیں کر رہی اور جو حربے آزما رہی ہے وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ پاکستان نے بھارتی حکومت کے ان غیر قانونی اقدامات اور ہتھکنڈوں سے اقوامِ عالم کو آگاہ کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ آج بھی پاکستان کی حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی حکومت کا قبضہ اور تسلط قطعی غیر قانونی ہے۔ بانی¿ پاکستان قائد اعظم نے اسے ہمیشہ خصوصی اہمیت دی اور اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ آج ہماری یہ شہ رگ بھارت کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اس شہ رگ کو دبوچے ہوئے ہے۔ ہمیں اس شہ رگ کو اس کے آہنی ہاتھوں سے چھڑانے کے لیے محض سفارتی سطح پر ہی جدوجہد نہیں کرنی عملی طور پر بھی دو قدم آگے بڑھنا ہو گا۔ کشمیر آج پوری دنیا کے لیے فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کے حصول کے لیے ہر نوع کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہ جنت نظیر وادی خونِ شہیداں سے سرخ رو ہو چکی ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ بالآخر ان کی کامیابی پر ہی منتج ہو گی۔
اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کی تمام آزادی پسند اقوام کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتی ہیں لیکن وہ بھارت کو نکیل ڈالنے کو تیار و آمادہ دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی عدم دلچسپی اور کمزور خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں اب کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے صحیح معنوں میں عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کشمیر ایک علاقائی تنازعہ نہیں ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا مستقبل اس مسئلے کے حل کے ساتھ جڑا ہوا ہے یہ مسئلہ جب تک حل نہیں ہو گا نہ تو خطے میں قیامِ امن کا خواب پورا ہو سکے گا اور نہ ہی نظریہ پاکستان کی تکمیل ہو سکے گی۔