عمران خان کے لیے مشکل مرحلہ
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں بنچ نے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا متفقہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ یہ مقدمہ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014ءمیں دائر کیا تھا۔ آٹھ سال کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ پڑھ کر ’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ جیسا محاورہ یاد آتا ہے۔ پی پی پی کے مرکزی لیڈر آصف زرداری کے خلاف جو مقدمات دائر کیے گئے ان کے فیصلے میں 12 سال لگ گئے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا عدل وانصاف کا نظام ناکارہ فرسودہ اور مضحکہ خیز ہو چکا ہے جس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ سنگاپور کے عظیم لیڈر لیکوان نے کہا کہ سنگاپور اس لیے معاشی طاقت بنا کیونکہ ہم نے قومی لٹیروں اور مجرموں کو دفاع کا حق ہی نہیں دیا۔ اس لیے کہ حکومت کے پاس ان کی کرپشن کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ سنایا، اس میں تحریر کیا گیا ہے کہ ’تحریک انصاف کے لیڈروں نے جانتے بوجھتے ہوئے ایسے ذرائع سے فنڈز وصول کیے جو پاکستان کے قوانین کے مطابق ممنوعہ تھے۔ تحریک انصاف نے آٹھ اکاو¿نٹس کو تسلیم کیا مگر تیرہ اکاو¿نٹس ظاہر نہیں کیے۔ عمران خان تحریک انصاف کے لیڈر کی حیثیت سے پانچ سال تک جو سرٹیفکیٹ دیتے رہے اس میں تحریر کیا گیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈ وصول نہیں کیے ان کا یہ سرٹیفکیٹ درست ثابت نہیں ہوا۔‘
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پہلے برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے ایک سٹوری شائع کی جس میں یہ کہا گیا کہ ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی نے خیرات کے نام پر کروڑوں ڈالر جمع کیے جو تحریک انصاف کے اکاو¿نٹ میں جمع کرائے گئے۔ عارف نقوی آج کل فنڈز خرد برد کرنے کے الزام میں برطانیہ میں نظر بند ہیں۔
عمران خان عارف نقوی کے ساتھ اپنے قریبی دوستانہ تعلقات کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 17 کے مطابق اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے جس نے بیرونی ممالک سے فنڈ وصول کیے ہوں تا کہ ان فنڈز کو پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ کا الزام نہیں لگایا اس لیے آئینی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے خلاف نہ ہی ریفرنس پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے سلسلے میں تحریک انصاف کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا ہے ممنوعہ فنڈز بحق سرکار ضبط ہو سکتے ہیں جس کے لیے عمران خان ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل نمبر 62 کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی لیڈر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو عمومی تا¿ثر کے مطابق کمزور دلیل پر نا اہل قرار دے دیا تھا۔
وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے خلاف ڈیکلریشن جمع کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تحریک انصاف پر پابندی لگوائی جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عمران خان کے خلاف الیکشن ریفرنس بھی دائر کر دیا ہے تاکہ انھیں نا اہل قرار دلایا جا سکے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں عمران خان کے خلاف جو کنواں کھودیں گی خود انھیں بھی اسی کنویں میں گرنا پڑے گا۔ قومی سیاسی اور جمہوری مفادات کا تقاضا ہے کہ سیاسی مسائل افہام وتفہیم سے حل کر لیے جائیں۔
عوام کو یاد ہوگا کہ عمران خان سپریم کورٹ سے صادق اور امین ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں جب ان کے اثاثوں کے بارے میں مقدمہ سپریم کورٹ کے زیر سماعت آیا تھا۔ اب انھیں ایک اور امتحان در پیش ہے۔ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ عمران خان نے تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے جو سرٹیفکیٹ جمع کرائے وہ درست نہیں تھے اور سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے پارٹی کے تیرہ اکاو¿نٹس الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے تو ان کے پاس اتنا مواد موجود ہے کہ جس کی روشنی میں سپریم کورٹ عمران خان کو بھی نااہل قرار دے سکتی ہے۔
سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی لیڈر عوامی مقبولیت کی لہر پر سوار ہو جاتا ہے تو پھر اس کے خلاف جتنی بھی الزام تراشی اور پروپیگنڈا کیا جائے اس کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے تحریک انصاف کے گراف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین لیڈر رہیں گے البتہ ان کو سپریم کورٹ میں آئینی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے بارے میں یقین اور اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے سابق سینیٹر سول سرونٹس کا خیال ہے کہ عمران خان کو سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور تسلیم کر لینا چاہیے کہ پارٹی اکاو¿نٹس کے سلسلے میں کچھ انتظامی خامیاں اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیں جن کو دور کیا جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ ممنوعہ اکاو¿نٹس چونکہ عمران خان کے ذاتی اکاو¿نٹ میں جمع نہیں ہوئے اور پارٹی کے اکاو¿نٹس میں جمع ہوئے ہیں اس لیے عمران خان کی سیاست اور وقار پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے عمران خان اور تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔
وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو ادراک ہے کہ وہ سب مل کر بھی عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتیں، لہٰذا وہ آئین اور قانون کا سہارا لے کر عمران خان کو نا اہل کرانے کی پوری کوشش کریں گی۔ عمران خان کو اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین مرحلے کا سامنا ہے۔ وہ عدالتی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا ان کو بھی نواز شریف کی طرح نا اہل قرار دے دیا جائے گا اس ضمن میں آئینی اور قانونی ماہرین مختلف تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔
٭....٭....٭