کیاسندھ میںآرٹیکل 149کا اطلاق ممکن ہے
سندھ میں گورنر راج اور آئین کے آرٹیکل 149 کی گونج پھر سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے ۔ حال ہی میںکراچی کے نالے صاف کرنے کے لئے وفاقی حکومت نے جو ذمہ داری این ڈی ایم اے (National Disaster Management Authority )کو تفویض کی اس کو بھی آرٹیکل 149 سے جوڑا جا رہاہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا آرٹیکل 149 سمجھ سے بالاتر ہے جسکو سمجھ آئے مجھے بھی سمجھائے۔صوبائی وزراء اس خیال کو دیوانے کا خواب قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ صوبائی خود مختاری پر کسی قسم کی چال کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی صوبے کے عوام کو تعلیم، صحت کا نظام، پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات دینے میں ناکام ہوگئی ہے۔ 12سالوں میں سندھ میں سیوریج کا نظام نہیں بنا سکی۔ ہماری نظرمیں پیپلز پارٹی حق حکمرانی کھوچکی ہے۔ ان کا مشن صرف عوام کو نقصان اور تکلیف پہنچانا ہے۔ شہر میں برسنے والی رحمت حکومت سندھ کی وجہ سے زحمت بن جاتی ہے۔اس لئے وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ وہ سندھ کا نظام سنبھال لے، سندھ کے لوگ بہت تنگ آچکے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کا K4کے منصوبے کو مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، کراچی میں پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اس منصوبے کی ذمہ داری بھی فوج کو دی جائے۔پی ٹی آئی کے رہنماوٗں کی جانب سے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ اور وفاقی مداخلت کے حوالے سے بیانات اور پریس کانفرنس کی نہ صر ف گورنر سندھ بلکہ وفاقی وزرا بھی کئی باروضاحت کر چکے ہیں کہ سندھ میں کوئی گورنر راج نہیں لگایا جا رہا اور نہ ہی وفاق مداخلت کرے گا۔ چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی )سراج قاسم تیلی نے بھی کراچی کو صاف ستھرا بنانے کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ پانچ سال کیلئے کراچی کو فوج کے حوالے کردے ۔اگر ہم آئین کی دفعہ149کا جائزہ لیں تواس میں واضح کہاگیا کہ صوبائی حکومت اپنے اختیارات اس طرح استعمال کرے گی کہ صوبے میں صوبائی اور وفاقی نظم و نسق کے درمیان کوئی تصادم نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کی خاطر وفاقی حکومت صوبوں کو خاص ہدایات بھی جاری کرسکتی ہے اور کسی وفاقی قانون کو عملی جامہ پہنانے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کو ایسی سڑکیں اور دوسرے ذرائع رسل و رسائل کی تعمیر کا حکم بھی دے سکتی ہے جو قومی یا دفاعی اہمیت کی حامل ہوں۔دوسری جانب آئین میں کی گئی اٹھارویں ترمیم صوبوں کو مکمل خود مختاری دیتی ہے۔اس ترمیم کے تحت مشترکہ فہرست بھی ختم ہوگئی اور زیادہ تر ادارے اور اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے۔آئین کی دفعہ148 کے مطابق صوبائی حکومت پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کرے گی کہ صوبے میں نافذ وفاقی قانون سے مطابقت رہے اور وفاقی قوانین پر عملدرآمد ہوسکے اسی دفعہ میں وفاقی حکومت کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ صوبوں میں اپنے اختیارات اس طرح استعمال نہیں کرے گی جس سے صوبوں کا مفاد مجروح ہو۔ صوبوں کو داخلی انتشار سے محفوظ رکھنا بیرونی جارحیت سے بچانا اور صوبائی حکومتوں کی نگرانی کرنا کہ آیا وہ آئین کے مطابق کام کررہی ہیں یا نہیں۔ وفاقی حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سندھ میں فی الحال کسی گورنر راج، وفاق کی براہ راست مداخلت یاآئین کے آرٹیکل 149کا نفاذ نظر نہیں آ رہا۔رواں برس 2020کا سب سے طاقتور اور خلیج بنگال سے آنیوالا اس سال کا پہلا بارشیں برسانے والا سسٹم سمندرمیںینم اور گرم ہواوٗںسے شدید طاقتورہوکر 6_اگست سے پاکستان کے ساحلی پٹی میں داخل ہوگا۔ دن میں رات جیسا سماں دھواں دھار شدت رکھنے والے مون سون سسٹم جسے Mahi کا نام دیا گیا ہے کراچی و دیگر شہروں کے لئے 2011 کے بعدشدید گرج چمک کیساتھ بارشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا۔یہ سب سے وسیع پیمانے اور پورا ہفتہ جاری رہ سکتا ہے۔ کراچی سے میرپورخاص تک موسلادھار بارشیں متوقع ہیں۔ آنے والے خطرے کے پیش نظر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے میرپور خاص اور حیدرآباد کے دورے کئے اور کراچی واپس پہنچنے پر ممکنہ شدید بارشوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میںتمام متعلقہ اداروں کوالرٹ رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے کے دوران کراچی شہر میں بارشوں کی پیشن گوئی کے حوالے سے تمام تر انتظامات کویقینی بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے شہر میں تمام نالوں کی صفائی کا کام ہنگامی بنیادوں پر جاری رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحیٰ کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں جاری صفائی کے کام کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے اور کراچی شہر میں بارشوں کے دوران تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنا ہوگا اور شہر میں بارشوں کے دوران بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے تمام تر انتظامات کو بھی یقینی بنایا جائے ۔میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی میں موسلادھار بارشوں کی پیشگوئی پر بلدیہ عظمی کراچی کے متعلقہ محکموں اور ضلعی میونسپل انتظامیہ کو عملے اور مشینری کو تیار حالت میں رکھنے کی ہدایت کی ہے جبکہ متوقع بارشوں کے پیش نظر کے ایم سی کے اسپتالوں کو بھی الرٹ کردیا گیا ہے اور فائر بریگیڈ، ریسکیو، پارکس ڈپارٹمنٹ اور محکمہ انجینئرنگ سمیت تمام متعلقہ محکموں میں افسران اور دیگر متعلقہ عملے کو ڈیوٹی پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں شہریوں کو فوری مدد فراہم کی جاسکے۔ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو بھی ہدایت جارہی کی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے مخدوش عمارتوں پر کڑی نظر رکھیں۔تاجر سراج قاسم تیلی نے تو یہ تک کہہ دیا کہپچھلے 20سالوں کے دوران تمام سیاسی جماعتیں جو حکومت کے تینوںدرجات بشمول وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں میں رہ چکی ہیں، نے کراچی کو ہمیشہ نظر انداز کیا جو کراچی والوں کے لئے تباہ کن صورتحال پیدا کرنے کا بنیادی سبب ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں جو 90 کی دہائی سے آج تک برسر اقتدار رہی وہ کسی بھی قسم کی ہمدردی کی مستحق نہیں ۔اس وقتکراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے تحت552چھوٹے بڑے نالے ہیں جن میں 12 بڑے نالے ہیں جس میں سے تین نالے نیشنل ڈزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی کے حوالے کئے گئے ہیں جہاں فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن نے ہنگامی بنیادوں پر صفائی کا کام شروع کردیا ہے بقیہ کی ذمہ داری سندھ حکومت نے لی ہے۔ کراچی کا تقریبا 40 فیصد رقبہ کنٹونمنٹ کے چھ علاقوں پر مشتمل ہے، کراچی کی شہری حکومت کے پاس محض 34 فیصد رقبہ ہے، دیگر رقبہ وفاقی ادارے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ریلوے کے پاس ہے۔ بلدیہ کراچی کی 30 سال سے حکمرانی ایم کیوایم کے پاس ہے، یہ جماعت وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی اہم اتحادی بھی ہے مگر ان دونوں کی جانب سے بلدیاتی مسائل کے حل نہ کرنے پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔کراچی سے پی ٹی آئی کے 14 ایم این اے اور 30 ایم پی اے ہیں، ایم کیوایم کے کراچی سے 21 ایم پی اے اور سات ایم این اے ہیں، کراچی میں ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ چیئرمین اور درجنوں کونسلرز ہیں اور سب کے پاس کروڑوں اور اربوں روپے کا فنڈ ہے۔ کراچی کے برساتی نالوںکو ہی سیوریج کے پانی کی نکاسی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان نالوں کی گذشتہ کئی برسوں سے صفائی نہیں ہوئی ۔ سپریم کورٹ احکامات کی روشنی میں صرف دکھاوے کے لئے چند نالوں پر تجاوزات کو ہٹا کر ان کی صفائی کی گئی لیکن بعد ازاں یہ کام تعطل کا شکار ہو گیا۔ نوائے وقت کو ملنے والے ریکارڈ اور اعداد وشمار کے مطابق کراچی کے نالے موجودہ صورتحال میں صرف یومیہ 25سے 30ملی میٹر بارش کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں۔ جبکہ مون سون کے پہلے سیزن میں کراچی میں 86 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ۔ آنے والے دنوں میں اس سے زیادہ بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن متوقع بارشوں سے قبل تین بڑے نالوں کی صفائی میں کس حد تک کامیاب ہوتی۔کیونکہ مسلہٗ صرف نالوں کی صفائی سے حل نہیں ہوگا۔ کراچی کے تمام چھوٹے بڑے نالوں سے تجاوزات کا مکمل خاتمہ اور پلان کے مطابق ان کے دونوں اطراف سڑکوںکی تعمیر ہے۔