خواجہ عبدالکریم قاصف مرحوم ۔تحریک پاکستان کے عظیم کارکن
سر پر جناح کیپ‘ صاف ستھرے کپڑے پہنے‘ عینک لگی ہوئی‘ نگاہیں نیچی‘ چال ایسی کہ چیونٹی کو بھی تکلیف نہ ہو‘ بغل میں اخبارات دبائے ‘ کسی گہری سوچ میں گم یہ وہ دلآویز شخصیت تھی جس کا نام خواجہ عبدالکریم قاصف ہے۔ جو 6 اگست 1985ء کو ہم سے جدا ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے خواجہ صاحب انتہائی منکسرالمزاج‘ بااخلاق اور رواداری کی ایک مثال تھے۔
خواجہ صاحب کہنے کو ایک فرد تھے مگر اپنی ذات میں ایک انجمن تھے وہ بیک وقت اپنے علاقے کی زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین‘ میونسپل کونسلر‘ سماجی کارکن‘ کہنہ مشق صحافی‘ اپنے اخبار ’’ملتان کرانیکل‘‘ کے مدیر اور مالک تھے۔ آپ کے ذاتی تعلقات یکساں طورپر گیلانی‘ قریشی‘ قریشی‘ گردیزی اور خاکوانی خاندانوں سے تھے۔ تاہم گیلانی خاندان سے آپ کے تعلقات عقیدت مندانہ تھے۔
مشہور و معروف صحافی اور مسلم لیگی میاں محمد شفیع (م ۔ ش) سے آپ کے دیرینہ دوستانہ مراسم تھے ایک دفعہ مسلم لیگ کی ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ مسلم لیگی حضرات کا ایک وفد اس وقت کے مشرقی پاکستان بھیجا جائے۔ ڈھاکہ میں مسلم لیگی کانفرنس کا انعقاد تھا چونکہ قاصف موصوف پنجاب کے صوبائی رکن تھے اس لئے آپ کو بھی منتخب کیا گیا اس وفد کے شرکاء میں ملتان سے مخدوم ولایت حسین گیلانی کو بھی مدعو کیا گیا تھا مخدوم صاحب کی دلی خواہش تھی کہ قاصف موصوف ان کے ساتھ شریک سفر ہوں۔ قاصف صاحب کسی کام کے سلسلے میں لاہور جا رہے تھے ازراہ کرم مجھے بھی ساتھ لیا۔ لاہور میں محترم م۔ ش سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ حسن اتفاق سے م۔ ش کو بھی ڈھاکہ کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا جا چکا تھا۔ دوران گفتگو ڈھاکہ کانفرنس میں شرکت کا ذکر آیا۔ م۔ ش نے فرمایا کہ وہ ڈھاکہ نہیں جا رہے اور نہ ہی قاصف صاحب کو جانے دیں گے میاں صاحب نے میز کی دراز سے اخبار نکالا جس کی ایک خبر ہولناک تھی کہ ہوائی جہاز کو زبردست حادثہ ۔ کتنے افراد جاں بحق (تعداد یاد نہیں ہے) میاں صاحب نے فرمایا قاصف صاحب ! اہل ملتان کو ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے اور آپ کی زندگی اس اجلاس سے بہت قیمتی ہے اور اہم ہے میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ ادھر انجمن فدایان اسلام کے صدر سید زین العابدین شاہ گیلانی نے بھی قاصف صاحب کو جانے سے روک دیا کیونکہ ان دنوں انجمن فدایان اسلام کافی فعال تھی اور قاصف صاحب اس انجمن کے جنرل سیکرٹری تھے۔ انجام کار قاصف صاحب ڈھاکہ نہ جا سکے۔
قاصف صاحب نے نوعمری میں ہی سیاست کی خار زار وادی میں قدم رکھا۔ آپ اپنی شعلہ نوائی سے ملتان کے مسلم نوجوانوں کو آنے والے وقت کے لئے ذہنی طورپر تیار کر رہے تھے تاکہ فرنگی اور ہندو سامراج کی مسلم لیگ کے خلاف شاطرانہ چالوں کو بے نقاب کر کے تحریک پاکستان کی راہ ہموار ہو سکے۔ فرنگی نے ہندو سامراج سے ساز باز کر کے قاصف صاحب کو نو ماہ کے لئے لاہور جیل میں بند کر دیا جب آپ رہا ہو کر ملتان واپس آئے تو انجمن فدایان اسلام کے جوانوں اور اہل ملتان نے عموماً سید زین العابدین شاہ صاحب کے زیر قیادت ایک مثالی استقبالیہ جلوس ترتیب دیا اور قاصف صاحب کو اس جلوس کا دولہا بنا کر باغ میں عام خاص لے گئے۔ وہاں آپ کو اہل ملتان کی طرف سے ایک تمغہ اور مرصع تلوار پیش کی گئی۔ سید زین العابدین شاہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس نوجوان نے ملتان کی لاج رکھ دی اس موقع پر قاصف صاحب نے بھی خطاب کیا جس میں ہندوؤں کی مکارانہ ذہنیت اور سامراج کی شاطرانہ چالوں کو بے نقاب کرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہ لیا سامراج کی مشاورت سے اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے آپ کو سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجنے کی پیش کش (Offer) کی مگر آپ نے اس سیاسی رشوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
خواجہ عبدالکریم قاصف کا شمار ملتان میں کل ہند مسلم لیگ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ آپ ملتان میں مسلم لیگ کے پہلے سیکرٹری جنرل چنے گئے۔
آپ کا دلی لگاؤ گیلانی خاندان سے تھا آپ اس خاندان کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ آپ سے زیادہ اس خاندان کی خدمات کے بارے میں شاید ہی کوئی اور جانتا ہو۔ ایک مرتبہ مخدوم سید ولایت حسین گیلانی نے چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ کی حیثیت سے قاصف صاحب کو ڈسٹرکٹ بورڈ میں پبلک ریلیشنز آفیسر (PRO) کی اسامی کی پیشکش کی مگر آپ نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ مجھے گیلانی خاندان سے عقیدت ضرور ہے مگر میں ان کی ملازمت نہیں کر سکتا۔ قاصف صاحب نے اپنی درویشی اور انا کو قائم رکھا جو تادم زیست آپ کا طرہ امتیاز رہی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے ایسے لوگوں کے لئے کہا تھا۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
قاصف موصوف ہمیشہ بلاامتیاز لوگوں کی خدمت کے لئے کمربستہ رہتے۔ سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں ان کے کام کرانے کے لئے متعلقہ دفتر میں پیدل تشریف لے جاتے کسی کو کرایہ رکشہ و تانگہ کے لئے زیر بار نہ کرتے۔ تشکیل پاکستان کے بعد آپ نے ایک پائی کا مفاد نہ اٹھایا۔ وہی سفید پوشی اور درویشی جو پہلے تھی وہی اس انداز سے آخر تک قائم رہی۔ آپ نے تمام زندگی اپنے چھوٹے سے مکان میں بسر کی اور یہاں سے ہی آپ کا جسد خاکی اٹھایا گیا۔ آپ چاہتے تو وہ بھی اپنا شمار امیر کبیر حضرات میں کروا سکتے کیونکہ اس وقت آپ نے مختلف لوگوں کو راشن ڈپو دلوائے مگر خود چینی بازار سے خرید کر ضرورت پوری کرتے۔ ان کی صاف ستھری سیاست اور بے داغ کردار پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ آپ نے زندگی بھر کسی سے مالی معاونت قبول نہ کی اگر ایسا کرتے تو ان کا انگریزی اخبار ’’ملتان کرانیکل‘‘ جو نامساعد حالات کا شکار رہا بند نہ ہوتا۔
قاصف موصوف نے بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کا پیغام اپنی تقاریر اور صحافت کے ذریعے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنایا یہی دھڑکن جو نوحہ بن کر کانوں میں گونجا وہ نعرہ تھا ’’پاکستان جو بن کر رہا‘‘
حکومت پنجاب نے قاصف موصوف کی تحریک پاکستان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف پر انہیں ان کی وفات کے بعد گولڈ میڈل دینے کا اعلان کیا جسے مرحوم کے صاحبزادے سلیم رضا آصف نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں غلام حیدر وائیں کے دست مبارک سے ایک تقریب میں وصول کیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ میڈل مرحوم اپنی زندگی میں ہی وصول کرتے مگر کیا کیا جائے۔ دنیا کی یہی ریت ہے کہ مرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مرنے والا کس قدر و قیمتی کا انسان تھا۔