جمعرات‘15 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 6؍ اگست 2020ء
پنجاب میں شادی ہالز، ریسٹورنٹس ،سنیما گھر اور تھیٹر کھولنے کی سفارش
ملک بھر اور پنجاب میں جس طرح کرونا کے مرض کی شدت میں کمی آرہی ہے، تجارتی حلقوں اور کاروباری افراد کی طرف سے حکومت پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بند شادی ہالز، ریسٹورنٹس، سنیما گھروں اور تھیٹرز بھی کھول دے تاکہ اس کاروبار سے وابستہ افراد کے مسائل بھی کم ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تمام کاروباری حلقے ایسے ہیں کہ ان میں رش اور لوگوں کا اجتماع بہرصورت ہوتا ہے،اب تک کوئی بھی ادارہ یا حلقہ حکومت کی حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا نہیں ہوا تو ان رش والی جگہوں پر حفاظتی اقدامات پر عمل کون کرے گا۔ اس وقت کرونا کی شدت میں کمی آئی ہے مگر فی الحال یہ پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ اگر ہمیں اپنی اور دوسروں کی جان بچانی ہے تو ہمیں ہر حال میں حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا ورنہ وہی بات ہے ہماری کہ ہم پس مرگ واویلا مچاتے ہیں۔ اگر حکومت خود سختی سے اپنی ہدایات پر عمل کراتے ہوئے یہ کاروبار کھولنے کی اجازت دے تو شاید کچھ ہو ورنہ عوام نے اورکاروباری حلقوں نے ازخود حفاظی اقدامات پر عمل نہ کرناہے اور نہ وہ کسی کو کرنے دینگے‘ ہماری قوم ڈنڈے کی زبان سمجھتی ہے، پیار کی زبان ان کی سمجھ میں نہ پہلے آتی تھی اور نہ اب آئے گی۔ اس لئے حکومت کو خود ہی سب کچھ کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭
آصف زرداری نے مجھ پر عائد 5سال کی پابندی ختم کرائی: شعیب اختر
اس سے چلیں یہ تو پتہ چلا کہ آصف علی زرداری کو کھیلوں سے نہ صرف شدبد تھی بلکہ وہ اس سے محبت بھی کرتے تھے۔ جبھی تو انہوں نے راولپنڈی ایکسپریس پر 5 سال کی لگی پابندی بیک جنش قلم محو کرا دی۔ یوں پاکستانی قوم کو اس وقت شعیب اختر کو کھیلتے دیکھنا نصیب ہوا۔ بلاشبہ وہ دنیا کے بہترین فاسٹ بائولروں میں سے ایک تھے۔ ان کی فٹنس بھی مثالی رہی ہے۔ چشم بد دور وہ تو ابھی تک‘ آج بھی مکمل فٹ نظر آتے ہیں۔ عمر میں ان سے کافی بڑے لوگ بھی ابھی تک ٹیم میں کھیل رہے ہیں۔ یہ تو زرداری جی کی مہربانی تھی کہ انہوں نے شعیب اختر کو کھیلنے کا نیا چانس دیا۔ یہ اگرچہ پرانی بات ہے مگر اچھی بات ہے، جس نے بھی کی ہو اس کی تعریف لازمی ہے۔ شعیب اختر بھی اپنے کیریئر سے مطمئن لگتے ہیں، اس حوالے سے بہت کم انہوں نے کبھی شکوہ یا شکایت کی۔ اچھا ہی ہوا وہ اپنے عروج کے دور میں کھیل سے دور ہوئے، اس لئے ان کی عزت باقی رہ گئی ورنہ ’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘ والی بات انہوں نے بھی سنی ہوگی۔ وہ یہ بات سننے سے محفوظ رہے۔ شعیب اختر ٹیم میں تمام تر اختلافات اور مخالفت کے باوجود جب تک کھیلے اچھا کھیلے۔ انہیں تیز رفتار فاسٹ بائولر کا اعزاز بھی حاصل ہے، تاہم وہ انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس اعزاز کی زیادہ خوشی نہیں تھی۔
٭٭٭٭٭
ایم ایل ون ریلوے لائن کی تعمیر سے پنڈی سے لاہورکا سفر 2گھنٹے میں طے ہوگا
سی پیک حکام کی طرف سے اس خبر کی اشاعت کے بعد تو ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ یہ ٹریک جلد مکمل ہو اور پاکستان بھر میں ریلوے کا نیا اور جدید نظام وجود میں آئے۔ اس وقت حالات کے مطابق ملک کو تیزترین ریلوے کی ضرورت ہے تاکہ مسافر اور سامان کی ترسیل میں بہتری آئے مگر سوال یہ بھی سر اٹھاتا ہے کہ سی پیک حکام راولپنڈی تا لاہور ریلوے ٹریک جسے ایم ایل ون کا نام دیا گیا ہے، مکمل بھی کرلیتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہماری بوسیدہ ریل گاڑیاں اس تیز رفتار سفر کا بوجھ سہہ سکیں گی۔ اس کے بوڑھے ہاپنتے کانپتے ڈبے اس رفتار کا ساتھ دے پائیں گے اگر یہ بات ریلوے کے وزیر شیخ رشید نے کی ہوتی تو لوگ اسے افسانہ یا سیاسی گپ شپ قرار دے کر فراموش کر دیتے۔ ویسے بھی وہ جب سے ریلوے کے وزیر بنے ہیں، ریلوے آگے کی طرف سفر کرنے کی بجائے پیچھے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ ان حالات میں ایم ایل ون ریلوے لائن کی تعمیر کسی خواب سے کم محسوس نہیں ہو رہی، ڈر لگ رہا ہے کہ آنکھیں کھولنے کے بعد کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے۔ ہم ویسے بھی کمزور دل لوگ ہیں، پنڈی سے لاہور تک کا سفر 2 گھنٹے میںطے ہونے کا تصور کرکے ہی ہمیں جھرجھری آجاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
نانبائی ایسوسی ایشن نے نان 20روپے کا کر دیا، قیمت مزید بڑھانے کا اعلان
یہ تو نانبائی ایسوسی ایشن والوں نے ایک بار پھر چھکا مارا ہے۔ ان کا یہ بیان منہ پھاڑ پھاڑ کر اعلان کر رہا ہے کہ قیمتوں کے تعین میں وہ آزاد ہیں اور کسی ادارے یا حکومت کے احکامات کے پابند نہیں۔ یہی آزادانہ روش تو ہمیں لے ڈوبی ہے۔ کوئی بھی دکاندار سرکاری ریٹس کی پابندی کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ حکومت بھی اپنی رٹ منوانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ نان 5سے 10پھر 10سے 12پھر 15روپے اور اب یکمشت 20روپے کا ہوگیا ہے۔ یہ تو سراسر غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والی بات ہے۔ اب شہری کیا کریں گے۔ ایک بالشت بھر نان جب 20روپے کا ملے گا تو ان کا خون تو ضرور کھولے گا۔ یہ تو شکر ہے کہ ہمارے شعور اور عقل کو تھپک تھپک کر سلا دیا گیاہے،اس کو جگانا مشکل کام ہے۔ اس لئے نانبائی بھی جانتے ہیں کہ ایک دو روز شور ہوگا پھر اس کے بعد ہم تم ہوں گے اور 20روپے کا نان ہوگا، لوگ چپ چاپ سر جھکائے نان خرید رہے ہوں گے اور انتظامیہ فرضی کاغذی کارروائیاں کرکے حکومت کو مطمئن کرتی رہے گی۔
٭٭٭٭