مملکتِ پاکستان داخلہ و خارجہ پالیسی ہو یا پھر سفارتکاری، ہماری سیاست اور ہماری پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی ادارے کہیں نہ کہیں معجزانہ طلسم کا شکار رہے ہیں۔ عسکری اداروں کو اکیلے ہی ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جا سکتا حالانکہ پچھلے 72سال میں وہ33 سال اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور سچ کہیے تو باقی کاعرصہ بھی یہی ادارے جزوی طور پر حرفِ آخر کہنے کی اتھارٹی رکھتے تھے۔ ہمارے عاقبت نااندیش سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے متعدد بار طالع آزمائوں کو یہ مواقع میسر ہوئے کہ وہ ملک کی سیاسی باگ دوڑ بھی سنبھال لیں۔ ایک دور تھا ، راقم خود بھی اپنے آپ کو جمہوریت کا بہت بڑا علمبردار تصور کرتا تھا اور 19سال کی عمر میں مجھے پہلی سیاسی جلاوطنی سہنی پڑی اور میں اب تک کی حیاتِ دوراں میں اپنے خاندان سمیت تین جبری جلاوطنیاں بھگت چکا ہوں۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں میری صلاحیتوں کو شہید بی بی نے اپنی زیرک سیاسی نظروں سے بھانپ لیا تھا اور مجھے فیڈرل کونسل پی پی پی کا رکن بنا کر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا اور میں نے بدلے میں اپنے وسائل اور اپنے عالمی تعلقات استعمال کرتے ہوئے شہید محترمہ کو امریکی دفتر خارجہ، امریکن پینٹاگون اور اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے ملاقات سمیت بے شمار بند دروازے شہید محترمہ کیلئے کھلوائے ۔جس کے نتیجے میں 2007ء کا این آر او کا معاہدہ ہوا اور محترمہ کی شہادت تک پی پی پی کی اکثریت راقم کو ہی اس کارنامے کا موجب سمجھتی رہی جس میں کسی حد تک سچ بھی شامل ہے مگر محترمہ کی شہادت کے بعد اور اسکے نتیجے میں مرتب ہونیوالے اثرات نے بعدازاں ثابت کیا کہ میری تمام تر جدوجہد محض ایک سیاسی خاندان کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے تھی اور محترمہ کے سیاسی جاںنشینوں نے اخلاقیات کی ہر وہ حد پار کی جس کو میرے اور میرے جیسے سینکڑوں کارکنوں کی قربانیوں سے منزل ملی تھی۔قارئین! دراصل ہمارا سیاسی نظامِ حکومت دقیا نوسی ہی نہیں آسیب زدہ بھی ہے ہم اکثر 1973ء کے آئین کی بات کرتے ہیں مگر اس آئین کو بنے بھی 46 سال ہو چکے ہیں مگر اسکے اثرات ابھی برآمد نہیں ہوئے بلکہ اسکی تشریح اور ترجمہ مشکل بنا دیا گیا ہے اور جب انگریزی اور اردو کو پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو میں اپنے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو کنفیوژن کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ہم جب عالمی سطح پر دیکھتے ہیں تو امریکہ کی طرح کا سینیٹ الیکشن براہِ راست ہونا چاہیے تبھی عوام کے منتخب نمائندے کہلا سکتے ہیں۔ ہمارے فرسودہ نظام میں سیاسی جماعتیں نامزدگیاں کرتی ہیں اور اراکین کو مسلسل دبائو میں رکھا جاتا ہے جس سے سیاسی بلیک میلنگ جنم لیتی ہے۔ میرے اپنے خیال میں اگر پاکستان کے کل ایک سو چھ اضلاع ہیں تو ہر ضلع سے سینیٹ کی ایک سیٹ ہونی چاہیے ،اس طرح صوبوں کو مساوی حقوق دینے کے نام پر کوٹہ سسٹم اور دھاندلی کا دھندہ بھی بند ہو جائیگا۔ کچھ یار لوگ شاید اس تجویز کو پارلیمانی نظام کے تحت قبول کرنے سے ہچکچاتے ہوں یا اسے صدارتی نظامِ حکومت کے قریب تر قرار دیتے ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک مضبوط وفاق اور ایک قومیت کا صحیح ادراک اسی میں ہے کہ مزید صوبوں کے نام پر پاکستان کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش کا حصہ نہ بنا جائے۔ یعنی ایک طرف ہم صوبائی خودمختاری کے نام پر وفاق کو بلیک میل کرکے اپنے معاشی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں، دوسری طرف پاکستانیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک ایسی کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔کئی دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ضلع گورنر سسٹم کا نظام رائج ہے۔ اس طرح پاکستاں میں بھی اس نظام کو رائج کرکے صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام بھاری بھرکم صوبائی پارلیمنٹ وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج اور بیوروکریسی کے لٹیروں سے جان چھڑائی جا سکتا ہے۔
قارئین! چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدمِ اعتماد کے دوران ایسے ایسے معجزات رونماہوئے کہ اس پر کئی افسانے لکھے جا سکتے ہیں یعنی حزب اقتدار کے پاس بمشکل چھتیس ووٹ تھے جبکہ حزبِ اختلاف کے پاس چونسٹھ اراکین تھے۔ ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے چونسٹھ ارکان نے کھڑے ہوکر تحریک عدم اعتماد کی تائید کی لیکن صرف پندرہ منٹ بعد جب خفیہ بیلٹ کے ذریعے پرچیاں برآمد ہوئیں تو اپوزیشن کے چونسٹھ پچاس میں تبدیل ہو گئے۔ قارئین! گذشتہ روز سینیئر سیاست دان خواجہ آصف نے برملا طور پر آصف زرداری اور پی پی پی پر دھوکا دہی کا الزام لگایا، قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ زرداری کا جیل میں فیملی سمیت سالگرہ منانا اور فریال تالپور کا زرداری ہائوس میں ہائوس اریسٹ ہونا اور وزیراعظم عمران خاں کے دورۂ امریکہ کے دوران بلاول بھٹو کا ان کی حمایت میں بیان دینا، سب اس بات کے شواہد ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں حاصل بزنجو کی قربانی دی گئی ہے اور محترمہ مریم نوازشریف کو اب سمجھ آ جانی چاہیے کہ ’’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘قارئین! ملک کو اس وقت اخوت، بھائی چارے اور یک جہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اپوزیشن اپنا سیاسی کارڈ کھیل چکی، اب سرحدوں پر مکار دشمن چنگھاڑ رہا ہے ،کون غلط کون سہی اس کا فیصلہ تو تاریخ کریگی مگر اٹھیے آگے بڑھیے اور قائداعظم کے بقول اپنی شہ رگ کشمیر کو دشمن کے زہر آلود پنجوں سے بچا لیجیے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024