کیا ہمارا پیارا وطن دنیا کے ان ممالک میں سے نہیں جہاں وسائل کی کوئی کمی ہی نہیں ؟ جب ہم کسی کو بتاتے ہیں کہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے ، یہاں شمالی اور جنوبی قطب کے بعد برف کی صورت میں دنیا میں پانی کے سب سے بڑے ذخیرے موجود ہیں جن سے بڑے بڑے دریا جاری ہوتے ہیں لیکن ملک میں بجلی نہیں ہے تو وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھنے لگ جاتا ہے۔ آج ہمارے ملک کے جو حالات ہیں اسکی بڑی وجہ صرف اور صرف بیڈ گورننس ہے جسے اردو میں،، بری طرز حکمرانی،، کہ سکتے ہیں اور سابق وفاقی حکومت کے سنہرے کارناموں کے بعدتو معاملات بڑھ کر گندی ترین طرز حکمرانی تک جا پہنچے تھے ۔ عوامی دور حکومت میں میرٹ کی خلاف ورزی کر کے رکھے گئے افسران اور ڈائریکٹروں نے پاکستان کے ان اداروں کو تباہ کر دیا جو دنیا میں مثال تھے۔ پاکستان کے ان اداروں سے اس طرح کی زیادتی کی گئی کہ اسے اجتماعی زیادتی کہنا غلط نہیں ہو گا۔ آپ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کو دیکھ لیں ایسا ادارہ جس کا ماٹو ہی باکمال لوگ لاجواب سروس تھا میں ایسا کالا جادو کیا گیا کہ آج یہ ایئر لائن نہ صرف اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں بلکہ پاکستان کی قومی معیشت کا خون نچوڑ رہی ہے۔اگر ہم ان مسائل کی وجہ تلاش کرنے نکلیں تو حیرانگی کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں کہ مسائل تو خود پیدا کئے جا رہے ہیں اور اداروں کو اجتماعی طور پر اس طرح تباہ کیا جا رہا ہے جیسے یہ کرپشن نہیں ثواب ہو۔ ہماری وزارت دفاع کے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ ترین افسر یہ بتاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن میں ارباب اختیار کی طرف سے اپنے دیرینہ دوستوں کو نوازنے، غیر ضروری بھرتیوں اور قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ قائم کیا گیا اور آج یہ ادارہ ادھار اور خسارے کی سانسیں لے رہا ہے۔ پی آئی اے کو اربوں کے قرضوں کے ساتھ ساتھ اربوں ہی کے نقصان کے ساتھ تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیاہے اور اس عمل کو تیز کرنے کیلئے پی آئی اے کے اہلکاروں کیلئے مالکانہ حقوق پر ہاو¿سنگ منصوبے شروع کرنے کا اعلان سونے پر سہاگہ ثابت ہوا پی آئی اے کے تکنیکی ماہرین کی رائے کیخلاف ایسے ایئر بس طیارے لیز پر لینے کا فیصلہ کیا گیا جن کے انجن پاکستان میں کامیاب نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور پی آئی اے کی نئی انتظامیہ کیا کارنامہ سرانجام دیتی ہے۔ تاحال تو وہ قصہ یاد آتا ہے کہ جب ایک کسان کی زمین دریا میں بہہ گئی تو اس نے کرین منگوائی اور باقی زمین کو بھی کھود کر دریا میں بہانا شروع کر دیا ایک سیانے نے پوچھا کہ بھائی آپ پاگل تو نہیں ہو گئے تو کسان نے کہا کہ بھائی یہ قدرتی آفت ہے اور اللہ کی مرضی اسی میں ہے تو میں نے کہا ثواب کا کام ہے رب کی رضا کیلئے اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں۔ پی آئی سمیت جتنے اداروں میں اب بھی دوستوں کو نوازا جا رہا ہے وہاں ایسے ہی نیک کام رب کی رضا کیلئے کئے جا رہے ہیں۔ایسے ہی کارناموں میں کچھ نام ایسے ،، خاک نشینوں ،، کے بھی آتے رہے ہیں جن کے بارے میں بات کرنا بھی چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے اسکی واضح مثال نیشنل لاجسٹک سیل کے اکاو¿نٹس میں خورد برد اور ملازمین کے پینشن فنڈ اور کمرشل بینکوں کا پیسہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹاکس میں لگایا گیا اور تقریباً 1.8ارب کا نقصان کیا گیا اور جب پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی نے اس معاملے کو دیکھا تو یہاں تین سول افسروں کے علاوہ تین سینیئر ملٹری افسران کا نام بھی آیا جس پر فوج نے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو ہم اپنی انکوائری کرینگے۔ اب یہ فیصلہ کون اور کب کریگا ؟ ماضی کی اس دوڑ میں پاکستان کا نجکاری کمیشن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا اور قومی اداروں کو کوڑیوں کے بھاو¿ بیچ کر حاصل کیا جانے والا عوامی پیسہ حکومت کی اشتہاری مہم پر لگایا جاتا رہا ۔ یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ اس ادارے نے ماضی میں 25 کروڑ کے اشتہارات دئے جن کا مقصد صرف اور صرف حکومت کی انتخابی مہم چلانا تھا۔ بیڈ گورننس کی اس کہانی کا فی الحال کو ئی اختتام نظر نہیں آتا کرپشن کے اس سیلاب میں پی آئی اے، پاکستان ریلوے، آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی اور پاکستان اسٹیل بہہ چکے ہیں اور کئی دوسرے اداروں کو خود بہایا جا رہا ہے۔حالات کی ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ سابق حکومت کے تعینات کردہ احتساب بیورو کے سربراہ کو آخر یہ کہنا پڑا تھا کہ اس ملک میں روزانہ 8سے 10ارب روپے کی بدعنوانی ہوتی ہے۔ یہ ایک سیاسی اور جمہوری نظام پر بہت بڑا دھبا ہے ۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی آج یہ کہہ رہی ہیں کہ اس دور میں بدعنوانی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اپنے پچھلے دور میں ہر موقع پر وفاقی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگاتے سنائی دیتے رہے لیکن کیا انکے زیر سایہ پنجاب میں گڈ گورننس کیلئے کوئی مثال قائم کی جا سکی ہے یا صرف دعوے ہی کئے جا رہے ہیں۔ اپنے ایک وفادار اور چہیتے ترین سابق عدالتی افسر کو پنجاب کا محتسب لگانے کیلئے وہ بھی بے تاب رہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری ادوار حکومت میں انکے زیر سایہ بیوروکریسی کا کردار عوام کیلئے قابل تقلید ہونا چاہیے لیکن صد افسوس کہ بدعنوانی کے الزامات کے علاوہ سب سے بڑا الزام جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران بیوروکریسی میں بھی تفریق پیدا کر چکے ہیں اور یہ افسر ہمارا اور وہ ان کا ہو چکا ہے۔اسی وجہ سے وفاق میں اچھی پوسٹوں کیلئے افسران نہیں مل رہے باوجود اسکے کہ انتہائی نیک نام افسر ناصر محمود کھوسہ اور فواد حسن فواد نے وزیر اعظم آفس کا نظام سنبھالا ہوا ہے۔وزیراعظم میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد سے اب تک جن افسران نے پنجاب اور پھر وفاق میں کام کیا انہوں نے تو نوکری کرنی ہی تھی اگر وفاق میں حکومت پہلے جنرل مشرف اور پھر پیپلز پارٹی کی رہی تو اس میں ان کا کیا قصور تھا؟ ہاں اگر کسی افسر نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں غلط کام کیا تو اسکا حساب ضرور ہونا چاہئے۔موجودہ حکمرانوں کو بیوروکریسی سے کام لینا چاہئے بیوروکریسی تیری یا میری نہیں ہوتی یہ تو عوام کی خادم ہونی چاہئے اگر حکمران ان کو میری تیری میں ڈال دینگے تو یہ پھر عوام کی خدمت کریگی نہ گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024