بلوچستان کے موجودہ حالات ،درپیش مسائل اور لوگوں میں پھیلی مایوسی کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے تو باقی عوامل کے علاوہ بڑی رکاوٹ انگریز کا نافذ کردہ سرداری نظام ہے ۔استحصال پر مبنی اس نظام نے بلوچ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کو ایک آسیب کی طرح جکڑ رکھا ہے انگریز نے یہ نظام عوام کو محکوم بنانے کے لیے نافذ کیا تھا آج انگریز خود تو جا چکا ہے لیکن اس کا نافذ کردہ نظام عوام کا استحصال اسی شد مد سے کر رہا ہے آج بلوچ نوجوانوں کو ان جعلی سیاستدانوں سے جو بلوچ حقوق کا علم لے کر میدان میں نکلے ہیں؟ یہ سوال کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی اولادیں تعلیم کے لیے بہترین تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے لیکن بلوچ نوجوان کی تعلیم ،معیشت ،صحت اور روزگار کے لیے 75 سال میں وڈیروں جاگیرداروں اور سرداروں کی طرف سے کون سے کار ہائے نمایاں سرانجام دہیے ہیں جو یہ اج سینہ چوڑا کر کے ریاست اور اس کے خلاف مٹھی بھر دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں-اختر مینگل، جو خود کو بلوچستان کے عوام کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں، درحقیقت دہشتگرد تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کھلم کھلا حمایتی ہے۔ ان کا حالیہ بیان کہ "میں ہمیشہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور کبھی انہیں نقصان نہیں پہنچایا"، محض اتفاقی جملہ نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث گروہوں کے لیے ان کی کھلی حمایت کا اعتراف ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ موصوف نے دہشتگردوں کی حمایت کی ہو۔ ماضی میں بھی انہوں نے بی ایل اے کے دہشتگردوں کو "ہمارے لیے قربانیاں دینے والے" قرار دیا اور عوام سے اپیل کی کہ انہیں "ہر ممکن طریقے سے سپورٹ کیا جائے"۔ یہ الفاظ کسی سیاسی چالاکی کا حصہ نہیں بلکہ ملک دشمن ایجنڈے کا کھلا ثبوت ہیں۔حال ہی میں ماہ رنگ بلوچ کی رہائی کے لیے نکالی جانے والی لانگ مارچ نے مزید واضح کر دیا کہ اختر مینگل، بی ایل اے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی )کے درمیان ایک گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ مہرانگ بلوچ جو بی ایل اے کی ایک معروف حمایتی ہے، خود کو انسانی حقوق کی کارکن ظاہر کر کے حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی گرفتاری پر اختر مینگل اور دیگر علیحدگی پسند عناصر کا احتجاج دراصل دہشتگردوں کے تحفظ کی کوشش ہے، نہ کہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ۔اس دہشتگردی کی حمایت صرف اختر مینگل تک محدود نہیں، بلکہ ان کا بھائی جاوید مینگل جو بیرون ملک بیٹھ کر لشکرِ بلوچستان نامی دہشتگرد تنظیم چلا رہا ہے، بھی اس گھنانے کھیل میں شامل ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بے گناہ بلوچ شہریوں کے قتل , اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی املاک پر حملوں میں ملوث ہے۔اختر مینگل، بی ایل اے، بی وائی سی اور لشکرِ بلوچستان کے ساتھ مل کر بلوچستان میں دہشتگردی کو ہوا دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف معصوم عوام متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ پاکستانی عوام کو ان کے اصل چہرے کو پہچاننا ہوگا اور دہشتگردی کے ان حمایتیوں کو مسترد کرنا ہوگا، جو نام نہاد حقوق کی آڑ میں ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اختر مینگل اور اسی طرح کے دیگر افراد نے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے قوم پرستی کا استحصال کیا، لیکن لوگوں کی خدمت کرنے میں ناکام رہے۔ جب ان کی حقیقت لوگوں پر اشکار ہوئی اور عوام نے انہیں مسترد کر دیا تو انہوں نے مسنگ پرسن کے مسئلے کو اپنی اہمیت بحال کرنے کے لیے استعمال کیا، بلوچ یکجہتی کونسل جیسے گروہوں کو اپنے ایجنڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کیا۔ دہائیوں سے سردار اختر مینگل نے وسائل کو برقرار رکھنے اور اس علاقے میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے قوم پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، لیکن انہوں نے علاقے اور حلقہ انتخاب وڈ کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اج تک کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وڈ کے لوگوں کا اختر مینگل پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے ۔جناب اختر مینگل سے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جب رحیم یار خان , بہاولپور, ملتان اور منڈی بہاالدین کے بے گناہ محنت کشوں کو بلوچستان میں چن چن کے گولیوں میں بھون دیا جاتا ہیں اس وقت ان بے گناہ مزدورں کی ماں بہنوں بیٹیوں کا خیال کیوں نہیں اتا اج تک اپ کی اور مارنگ کی طرف سے ان بے گناہ لوگوں کی قتل میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا- پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق بلوچ قوم پرست باغیوں نے عام مسافروں اور سکیورٹی فورسز پر گذشتہ سال 202 حملے کئے تھے جن میں 322 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور ان ہی میں 62 وہ تھے جنہیں صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ بلوچ نہیں تھے،اپ اگر حقوق کی بات کرتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی بات کرتے ہیں تو اپ کو تو یہ لانگ مارچ بہت پہلے شروع کر دینا چاہیے تھا!!
نام نہاد حقوق کے لبادے میں ملک دشمن ایجنڈا
Apr 06, 2025