سلمیٰ اعوان کا ستارہ امتیاز

Apr 06, 2025

بلقیس ریاض

   گذشتہ ماہ 23 مارچ کی تقریب میں سلمیٰ اعوان کو ستارہ امتیاز بڑی شان وشوکت سے ملا۔ میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔گورنر ہاؤس میں بڑی خوبصورت محفل سجی تھی۔ پھولوں کی مہک اور اس کی اپنی خوشبو کی وجہ سے سارا ہال معطر ہوگیا تھا.
لوگ اس کی تحریر کے مداح ہیں کیونکہ اس کی تحریر میں بڑی سادگی اور سلجھا ہوا بے لوث پن ہے اس لئے اس کی شخصیت میں کسی قسم کی کوئی بناوٹ نہیں ہے۔ سلمیٰ اعوان اس عہد کی بہترین مصنفہ ہیں جنہوں نے ان تھک محنت کر کے ثابت کیا ہے کہ اچھے سفر نامے کیا ہوتے ہیں۔ 
سلمیٰ اعوان کے ساتھ میری چالیس سال کی ادبی رفاقت ہے جو میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ وہ ایک اعلیٰ ادیبہ اور تخلیق کار ہے لیکن ایک خوبصورت انسان بھی ہے۔ چار دہائیوں میں میرا سلمیٰ اعوان کے ساتھ ہر موڑ پر واسطہ رہا۔ اس نے میرا ساتھ دیا اور میری حوصلہ افزائی کی اور کبھی کبھی تعمیری تنقید بھی کی۔ 
سلمیٰ جیسے انسان آج کے اس عجیب و غریب دور میں کم ہی ملتے ہیں۔ اسکے فن پر گھنٹوں بات ہوسکتی ہے لیکن میں اتنا کہوں گی کہ سلمیٰ کے سفرنامے لازوال ہیں اور مستقبل میں ہر عہد میں لکھنے والے تخلیق کا معیار بناتے ہیں۔ سلمیٰ ہمارے عہد کی ملکہ ہے۔ شام کے ملک جانے کی بڑی دشواری تھی۔ وہاں جاتے ہوئے مرد بھی گھبراتے تھے مگر محترمہ نے نڈر ہوکر تن تنہا سفر کرنے کا ارادہ کر لیا دل دہل رہا تھا کہ یہ کس طرح شام کے ملک جائے گی۔ تنہا عورت کسی کو اپنے ہمراہ نہ لے کر جائے اور اکیلی گھومے پھرے تو ستارہ جرأت لینے والی بات ہو گی۔
بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھا اور جن باتوں کا اظہار ایک عورت سے کس طرح ہوگا۔ مگر اس نے جرأت مندی سے ان باتوں کا خیال رکھا اور اچھے انداز میں بیان بھی کر دیا، بلکہ واقعات اور تجربات و احساسات کے ایسے پہلو بھی ہوتے ہیں جن پر ایک نظر نہیں پڑتی۔ مگر سلمیٰ کی نظر اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اور اپنے مشاہدے سے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو غیر معمولی بنا دیتی ہے. 
اپنے سفر نامے میں کبھی کبھی پنجابی کا لفظ استعمال کرنے سے اس کی تحریر کا مزہ دوگنا ہو جا تا ہے. اس کے سفرنامے پڑ ھ کر کوئی ایسا نہیں ہوگا جو داد نہ دے۔ اس کا سفر نامہ شام امن سے جنگ تک پڑھ کر میں فضاؤں میں گم ہوگئی۔ اس کی خوبصورت تحریر کے جادو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ 
سلمیٰ ایک جہاندیدہ خاتون ہے۔ اس کی تحریر میں پیار کرتا ہوا انسان دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک سے محبت کر تی ہے اور ہر ایک کو خوش رکھتی ہے۔ کوئی اس سے ناراض نہیں ہوتا وہ ایک درویش صفت خاتون ہے۔ شام کے سفر میں کوئی ایسا مزار نہیں تھا جہاں اس نے حاضری نہ دی ہو اور نفل نہ پڑھے ہوں۔ تنہا عورت کسی کو ساتھ نہ لے کر جائے اور اس طرح کے سفر نامے لکھے تو بڑی جرأت مندی اور حیرت کی بات ہے۔
سلمیٰ اعوان بہترین سفرنامہ نگار،کالم نگار،افسانہ نگار اور ناول نگار ہے اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے۔ اس نے چین کا سفر نامہ میرے ہاتھ میں دیا اور میں نے جب پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ ایک انمول موتی سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر میرے ہاتھ میں آگیا ہو۔
برصغیر کے ادبی افق پر سب سے چمکدار ستارہ سلمیٰ اعوان کی ذات ہے۔ اسکی تخلیقی صلاحیتیں عمر کے ساتھ ساتھ پھیلتی رہیں زمانے کی دھوپ نے اس کے ادب کو نکھارا اسے خود معلوم نہیں تھا۔ کتنا عمدہ لکھتی ہے۔ اس کے دل میں عاجزی اور انکساری ہے۔ سادہ طبیعت اور ذرا بھر غرور نہیں کہ میں اتنی بڑی لکھاری ہوں۔
سلمیٰ اعوان اللہ تمہیں سلامت رکھے، تمہارے قلم کو مزید جلا بخشے اور روز روز اسی طرح کی خوشیاں دیکھو آمین۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں