گھر میں گنتی کے افراد ہوتے ہیں کم ہوں یا زیادہ، لیکن جو نہی گھر سے باہر نکلیں، ایک ہجوم ہر کسی کا استقبال کرتا ہے۔ کوئی شاہراہ ہو یا بازار، آ دم زادوں سے بھرے پڑے۔ ہر طرف ٹریفک جام اور سب کے سب ایک دوسرے سے آ گے نکلنے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کو کسی کی فکر نہیں، سب اپنی مشکل آسان کرنا چاہتے ہیں خواہ دوسروں کے لیے مشکلات ہی کیوں پیدا نہ ہو جائیں، الحمدللہ ہم دین حق کے قائل کلمہ گو ہیں مالک کائنات اپنے نسخہ کیمیا میں یاد دہانی کراتا ہے کہ اپنے لیے آ سانیاں مانگنے والو، تم بھی خلق خدا کی بھلائی کے لیے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو، سب یہ راز بھی جانتے ہیں کہ دنیا چار دنوں کی یے، پھر اندھیری قبر، مٹی کے پتلے مٹی میں ہی مل کر خاک بن جائیں گے چاہے انہیں سپرد خاک کرو، پانی میں بہاؤ یا جلا کر راکھ کر دو۔ کسی نہ کسی صورت اس نے اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ عقیدہ، مذہب اور مسلک خواہ کچھ بھی ہو پھر بھی سب کے سب دنیا کی رنگینیوں میں مست اپنی اگلی منزل سے بے خبر ہیں، یہ دو دونی چار نہیں، 99 اور 100 برس کا سامان اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں، کوئی پوچھے بھائی اگلے جہان کی تیاری بھی کی ہے یا نہیں ؟ تو سیدھا سادہ جواب دیں گے اللہ بے نیاز ہے وہ غلطیوں کوتاہیوں کو معاف کرنے والا ہے بندہ تو غلطی کا پتلا ہے‘ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ریاستوں میں آ بادی کا جن بے قابو میں ہے جبکہ دنیا میں ایک سے زیادہ ایسے ملک بھی ہیں جہاں آ بادی اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ وہاں آ بادی بڑھانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
برصغیر میں پاکستان اور بھارت بڑھتی آبادی کو ہزاروں جتن کرنے کے بعد بھی کنٹرول نہیں کر سکے لیکن بنگلہ دیش نے علماء کرام کی مدد سے یہ کارنامہ ا نجام دے دیا حالانکہ ،،سقوط ڈھاکہ،، سے پہلے بنگالیوں پر آ بادی بڑھانے کا الزام تھا پھر بھی انہوں نے حالات سے سبق سیکھا ،اجتماعی کوشش سے اپنے اسلامی اصول و روایات میں رہتے ہوئے آ بادی کا مسئلہ حل کر لیا، جس کے نتیجے میں اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وسائل بڑے اور مسائل کم ہوئے، اس قدر قریبی مثال کے ہوتے ہوئے بھی پاک بھارت آ بادی کے جن کو اپنی حکمت عملی کی بوتل میں بند نہیں کر سکے لہذا آ بادی وسائل کو کھا کر اپنے پرائے سب کے لیے مسائل بڑھا رہی ہیں، جسے زندگی ملی ہے وہ خود کو اعلی و ارفع سمجھتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ ارد گرد سے کتنے ہم سفر نئی دنیا کے سفر پر چل دیے۔ اگر آ ج یہ گئے ہیں تو کل ہماری باری بھی آ جائے گی۔ حالانکہ شہرخموشاں میں جائے پناہ لینے والوں کی عمر کی کوئی پابندی نہیں، وہاں اپنے پرائے ،امیر غریب، بادشاہ اور غلام سب کے سب ایک جیسے پلاٹوں کے ابدی مکین ہیں یہ مرلے، کنال، ایکڑ اور مربع صرف دنیاوی حرص و ہوس ہے زربرق پوشاک اور لذت دہن کا تعلق دنیا سے ہے ورنہ آ دم زادے کی اوقات حقیقی طور پر یہی ہے کہ بے لباس اکیلا اور روتا پیٹتا اس جہان میں آیا اور دوسروں کو روتا پیٹتا چھوڑ کر صرف ایک سفید کپڑا لے کر واپس لوٹ گیا، پھر یہ رنگینیاں کس کام کی، آ دم زادے دنیا کی بھول بھلیوں میں اس مالک کو فراموش کر بیٹھے جس نے ان کی زندگی کو ایک سانس کے بندھن میں اپنے نور روح سے باندھ کر اترانے، غرور اور طاقت آ زمانے کے لیے چھوڑ دیا، عقل سلیم بھی بخش دی تاکہ یہ دوسرے جانوروں سے برتر ثابت ہو لیکن ان تمام رحمتوں کو مٹی کے پتلے اپنا حق سمجھتے ہوئے وہ کچھ کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے، اس صورتحال میں چھوٹے بڑے سب کے سب اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس حکم عدولی میں عام آ دمی سے سپر پاور ہونے کے دعویٰ دار صدر ٹرمپ تک سب شامل ہیں جبکہ حضرت علی کا قول ہے کہ تمہیں اس دنیا میں جانچا جارہا ہے لیکن تمہیں پیدا دوسری جگہ کے لیے کیا گیا ہے۔ یعنی دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔
مٹی کے پتلے خواہ کتنی ہی طاقت میں ہوں ان کے پاس زر و جواہرات کے جائز ناجائز ڈھیر لگے ہوں اس کی سلطنت خواہ پوری دنیا پر قائم ہو، اس کا جاہ و جلال ایسا ہو کہ کوئی اس کے سامنے آ نکھ اٹھا کر بات کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، ایسے میں بھی اگر ،،حکم ربی،، ہو جائے تو روح کی پرواز کے ساتھ ہی آ دم زادے کے جسم میں موجود 30 ٹریلین خلیے مرنے شروع ہو جاتے ہیں اور ھر ایک پر بیکٹیریا مسلط ہو جاتا ہے جو انہیں توڑ پھوڑ دیتا ہے اسے،، ڈی کمپوزیشن،، کہتے ہیں بیکٹیریا کا تسلط ایسی کارروائی کرتا ہے کہ جسم میں موجود کاربوہائیڈ ریٹس اور پروٹین کو بدبودار گیسز میں تبدیل کر کے مکھی اور کیڑے مکوڑوں کو،، توجہ دلاؤ نوٹس،، دیتا ہے زیر زمین جاتے ہی وہ انسانی جسم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہڈیاں بھی مٹی میں مٹی ہو جاتی ہیں ذرا سوچیے یہ وہی آدم زادہ ہے جو اس مٹی سے بنایا گیا، اسی زمین پر اکڑ اکڑ کے اپنی طاقت اور منصب پر فخر کرتا رہا، زندگی میں ہزاروں دوست بنے لیکن وہی وقت آ نے پر قبر میں اکیلا چھوڑ کر اپنے اپنے کام کاج میں پھر سے مصروف ہو گئے جائیدادیں جائز تھیں کہ ناجائز سب تقسیم ہو گئیں بسا اوقات شریک حیات بھی کسی دوسرے کے نکاح میں چلی جاتی ہے پھر بھی زندگی جینے والے کچھ نہیں سیکھتے بازاروں، گلی محلوں، کھیل کود کے میدانوں اور تفریح میں روزانہ گھنٹوں گزار دیتے ہیں لیکن نماز جس میں چند منٹ لگتے ہیں اس سے فرار ،رمضان المبارک میں مسجد آ باد شاید اس لیے کہ اللہ نے 70 ماؤں جیسی محبت میں حضرت شیطان کو باندھ رکھا تھا۔
شوال کا چاند نکلتے ہی وہ آ زاد کیا ہوا ، مسجدیں ویران ہو گئیں، ذرا غور فرمائیں کہ بندہ خدا نے اپنی بندگی کی ذمہ داری پوری کی کہ نہیں، اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد جنت کی خواہش مند ہے سب کے سب لیکن کیا ہم نے نئے سفر پر جانے کی کوئی تیاری کی، کیا ہم نے بحیثیت کلمہ گو کوئی زاد راہ اکٹھا کیا؟۔ گزرا کل اب واپس نہیں آ ئے گا، آ ئندہ کل ہم نہیں جانتے کہاں ہوں گے، آ ج ہم جہاں ہیں جیسے ہیں ایسا ہمیشہ نہیں رہتا، اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے لہذا رواداری ،برداشت سے اعتدال پسندی میں زندگی گزارو شکوہ نہیں، معاف کرنے اور معافی مانگنے کی عادت ڈالو، یہی زندہ لوگوں کی خیرات ہے، اگر اپنے اپ کو زندوں میں سمجھتے ہیں تو سفر آخرت جہاں سے کبھی واپسی ممکن نہیں ہوتی اس کے لیے بھی کچھ کر گزریں، صرف تعلق رکھنا کوئی کمال نہیں، تعلق نبھانا بڑا کمال ہے۔ آپ کے وہ الفاظ بھی کسی تحفے سے کم نہیں ،جو دوسروں کو زندگی میں آ گے بڑھنے کا حوصلہ دیں، اگر صاحب ثروت ہیں تو غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے لیے فکر مند رہیں آ پ نے اپنے مال سے نہیں، اللہ کے دیے ہوئے مال سے خالق حقیقی کے نام پر خرچ کر کے’’زاد راہ،، اکٹھا کرنا ہے یقین جانیے صدقہ، خیرات ہی نہیں، نیک کمائی سے نیک کام کے لیے کچھ خرچ کرنا بڑی نیکی ہے۔
یاد رکھیں کہ جزا و سزا پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اپنا احتساب کرنے کو تیار نہیں تو شاید روز محشر مالک حقیقی کے ترازو کے پاس عبادت گزاروں، دین داروں، روزہ داروں ،صدقہ و خیرات دینے والوں برقعوں اور حجابوں کا ڈھیر لگا ھو، ایسے میں اللہ تعالی صرف نیتیں تولنے کا حکم دے دے گا پھر کیا نظر آ ئے گا جان جائیں کہ مٹی کا پتلے کا آ خر مٹی ہی ہوگا لہذا زندگی کا تحفہ ملا ہے تو جو کچھ اچھا کر سکتے ہیں اللہ کو گواہ بنا کر گزریں، اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں ،اعمالوں کا دارومدار نیتوں پر ہے صرف نیت اچھی رکھیں، وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اس لیے کہ وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے اس لیے ڈھول ڈھمکے کی بھی ضرورت نہیں، آ ج کا کام کل پر ہرگز نہ چھوڑیں کیونکہ کل کس نے دیکھی ہے۔
٭…٭…٭
مٹی کے پتلے
Apr 06, 2025