جب نوائے وقت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ خاتمے کے نوٹیفکیشن کو بروقت عوام کے سامنے لایا تو حکومت حرکت میں آئی اور بروقت کارروائی کرتے ہوئے نوٹیفکیشن واپس لیا گوکہ ابتدائی طور پر حکومت ناکام ہوئی لیکن اس کے بعد پلان بی پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے جنوبی پنجاب کو اس کا حق دینے کے لیے اقدامات کیے۔ حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنا بڑا نوٹیفکیشن ہو جانا حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ کام بیوروکریسی نے کیا ہے تو بیوروکریٹس پر کڑی نگاہ رکھنا کس کی ذمہ داری ہے۔ اگر بیوروکریسی اتنی آزاد ہے یا اسے کسی کا ڈر خوف نہیں ہے تو یہ بھی حکومت کی کمزوری ہے۔ اگر اسے سازش بھی کہا جائے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکومتوں کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اچھی حکومتیں سازشوں کا توڑ کرتی ہیں۔ اس لیے حکومت کی طرف سے ابتدائی طور پر ہونے والی کوتاہی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ یاد ضرور رکھنا چاہیے کہ اگر آج مرکز اور پنجاب میں ان کی حکومت ہے تو اس کی سب سے بڑے وجہ یا اس میں سب سے بڑا حصہ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ والوں کا ہی ہے۔ وہاں کے سیاستدانوں کی حمایت اور انضمام کی بدولت ہی پاکستان تحریکِ انصاف نمبرز گیم میں آگے نکلی اس لیے جنوبی پنجاب کے حوالے سے کوئی بھی بات یا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جنوبی پنجاب محاذ کی اہمیت کیا ہے اور حکومت سازی میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔ میرا جنوبی پنجاب محاذ سے بہت قریبی اور جذباتی تعلق ہے اس لیے سیکرٹریٹ کے حوالے سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن تکلیف دہ تھا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار یہ خبر سامنے آنے کے بعد متحرک ہوئے اور پھر انہوں نے ساری توانائیاں جنوبی پنجاب کے وسائل سے محروم عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو نبھانے کے لیے کام کیا۔ یقیناً اس عمل سے انہیں سیاسی طور پر بھی بہت فائدہ ہو گا۔ درحقیقت حکومت کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اگر وہ جنوبی پنجاب کے محروم عوام کو ان کا جائز حق دیتے ہیں تو آئندہ عام انتخابات کے لیے کامیابی کو پیشگی یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کی بڑی آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ وہاں لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہیں، وہاں کے لوگ اپنے سیاستدانوں، وڈیروں کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن عام آدمی کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں نے خود تو اسمبلیوں میں پہنچ کر بے پناہ فائدے اٹھائے لیکن عام آدمی کو ابھی تک کچھ نہیں مل سکا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ عوام کی سہولت کے لیے جنوبی پنجاب کے سیکرٹریز کو با اختیارکر رہے ہیں۔ اپوزیشن سیاسی موت آپ مر رہی ہے ، مخالفین کی پرواہ نہیں ، ہم کام کرتے رہیں گے ،جنوبی پنجاب سمیت تمام پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کاازالہ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہی حالات بدلے ہیں لیکن کام ختم نہیں ہوا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا بھی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا یا گلگت بلتستان کے لوگوں کا ہے۔ جنوب والوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تو کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ جنوبی پنجاب کے نام پر، جنوبی پنجاب کے عوام کے خوابوں کا سودا کر کے، وسائل سے محروم عوام کے کندھوں پر چڑھ کر قومی و صوبائی اسمبلیوں تک پہنچے ہیں وہی راستے سے ہٹ گئے انہوں نے اپنے ووٹرز کے ارمانوں کا خون کیا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کیوں نہیں بن سکا اس میں پنجاب اور مرکز سے زیادہ ذمہ دار جنوب کے وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے اس نعرے پر عوام کو یکجا کیا لیکن بدقسمتی سے اسمبلی میں جانے کے بعد وزارتیں لینے کے بعد مقصد سے ہٹ گئے اور یہی کچھ جنوب کے غریب عوام سے دہائیوں سے جاری ہے۔ بدقسمتی ہے کہ سیکرٹریٹ ختم کرنے کے نوٹیفکیشن کے بعد بھی اس علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی سیاست دان، کسی وفاقی و صوبائی وزیر کو دو لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی، سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ کسی نے برائے نام بھی اظہار خیال نہیں کیا، حالانکہ ان سب کی سیاست کا مرکز ہی الگ صوبے کا قیام تھا۔ بدقسمتی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے اسمبلیوں میں جا کر ووٹرز، ان کے مسائل اور وعدوں کو یکسر بھلا دیا۔ حالانکہ جنوب کے غریب عوام کو ان کا حق سب سے پہلے ملنا چاہیے ان کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ فوری طور پر الگ صوبے کے قیام میں کوئی آئینی و قانونی رکاوٹ نظر آتی ہے تو اس کا متبادل ہونا چاہیے ایک بھرپور سیکرٹریٹ ہونا چاہیے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سول سیکرٹریٹ کو مضبوط و فعال کریں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ایشو پر وزیراعلیٰ پنجاب کا فوری ایکشن قابل تحسین ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی محرومیوں کے ازالے کا دور شروع ہوچکا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ محرومیوں کا دور ختم ہو، جنوب والوں کے لیے نیا سورج طلوع ہو، حق تلفی اور احساس محرومی کی جگہ انہیں جائز حق اور مقام ملے۔ بلکہ اب جتنا وقت گذر چکا ہے یا جتنا نقصان ہو چکا ہے اسے بہتر کرنے کے لیے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کے بجائے پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک قدم آگے بڑھ کر ڈپٹی وزیر اعلیٰ کا عہدہ بھی تخلیق کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ڈپٹی وزیر اعلیٰ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ماتحت کام کرے اور جنوب کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوں۔ ان کا اپنا وزیر اعلیٰ ہو۔ اس انداز سے ناصرف احساس محرومی کم ہو گا بلکہ دوریاں بھی کم ہوں گی۔ اپنائیت میں اضافہ ہو گا اور ترقی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو مفاد پرست سیاست دانوں کے چنگل سے نکالنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں وہ جو اسمبلیوں میں جا کر جنوب کو بھول گئے اور مغرب کی رنگینیوں میں کھو گئے ان کا احتساب اس وقت ہی ہو گا جب خوشحالی آئے گی، عوام کی زندگی میں آسانی پیدا ہو گی اور لوگوں کا طرز زندگی بلند ہو گا۔ وڈیروں، جاگیر داروں سے نجات ملے گی، تعلیم عام ہو گی، زندگی کی سہولیات میسر ہوں گی۔ یہ سب انقلابی اقدامات ہیں یہ جنوب کے لوگوں کا حق ہے انہیں یہ حق ملنا چاہیے۔
لاہور میں ایک طرف تو کرونا کی وجہ سے حالات خراب ہیں تو دوسری طرف امن و امان کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ بالخصوص نشہ عام ہو چکا ہے اور نوجوان نسل کا منفی سرگرمیوں کی طرف رجحان نہایت خطرناک ہے۔ گذشتہ روز بھی ایک بدبخت نے نشے سے منع کرنے پر والدہ اور گھر والوں پر فائرنگ کر دی۔ ملزم رانا بلال کی فائرنگ سے اس کی بھابھی ہلاک ہو گئی جب کہ فائرنگ کی زد میں آکر ایک راہگیر بھی مارا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی فائرنگ سے اس کی والدہ، بھائی اور بہن بھی زخمی ہوئے ہیں۔ پنجاب پولیس کو منشیات فروشوں ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کرنی چاہیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38