نوائے وقت کے صفحات گواہ ہیں کم از کم گزشتہ ڈیرھ برس میں بذریعہ سائرن درجنوں کالم اشیاء خوردونوش کی بلاتعطل فراہمی اور کم قیمتوں پر دستیابی کے لیے وزیراعظم عمران خان اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اتنے پیغامات اور تجاویز پیش کی گئیں کہ اگر ان میں سے نصف پر کام کیا جاتا تو حقیقی و مصنوعی مہنگائی دونوں پر کسی حد تک قابو ضرور پایا جا سکتا تھا۔ چینی کم نہیں آٹا کم ہو جائے گا ایک ایسا کالم تھا جس میں چینی کی ممکنہ کمی کے مسائل پر کالم اس بحران سے کئی ماہ قبل ہی لکھ دیا گیا تھا۔ پھر چینی کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں، چینی کا بحران بھی پیدا ہوا اور ہر سطح پر حکومت میں موجود افراد ایک دوسرے کو الزام دیتے رہے۔ سیاست دان بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں لگے رہے۔ اس دوران بھی حقیقی مسائل نظر انداز ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ سیاسی مخالفت میں بیان بازی کرتے ہوئے عوامی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس سیاسی بیان بازی میں عوامی مسائل بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ آٹا بحران وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوا۔ اس بحران میں بھی سارا بوجھ عوام نے اٹھایا اور چینی بحران کی وجہ سے بھی سارا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب تک اس طاقتور طبقے کے خلاف مناسب نداز میں کارروائی نہیں کی جائے گی عوام کو فائدہ نہیں مل سکتا۔ تین فیصد طبقہ ستانوے فیصد لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے انکی زندگیوں میں مشکلات پیدا کرتا ہے اور اس رپورٹ میں بھی اصل مسئلے کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فروری دو ہزار انیس میں چینی سے نکلنے والی قیمت اڑتالیس روپے فی کل تھی چند ماہ میں یہ قیمت اسی روپے فی کلو تک کیسے پہنچی۔ قیمت میں اتنی تیزی سے اضافہ کیوں ہوا، کیسے ہوا اور کس کس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور کون کون قیمتوں میں اضافے کے اس گھناؤنے کھیل میں شامل رہا۔ اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ سبسڈی ہر حکومت دیتی ہے اور موجودہ حکومت نے بھی سبسڈی دی اس لیے اصل مسئلہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔ چند ماہ میں چینی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا حکومتیں اور متعلقہ ادارے سوئے رہے بلکہ اب بھی سوئے ہوئے ہیں۔ حکومت اب بھی سنجیدہ ہے تو اسے اصل مسائل کی طرف آنا ہو گا۔ رپورٹ مرتب ہونا، شائع ہونا اس کا کریڈٹ جس کو مرضی دیں لیکن عوام کو یہ پتہ چلنا چاہیے کہ اشیاء خوردونوش میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے مشیر اور پرائس کنٹرول کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ایسی کئی میٹنگز کیں، اصل ذمہ داروں کی نشاندہی کی، مسائل کا حل بتایا اور عوام کی زندگی مشکل بنانے والوں کو تمام ذمہ داروں کے پیش کیا اس کے نتیجے میں عوامی آواز کو دبا دیا گیا۔ مافیا حرکت میں آیا اور اشیا خوردونوش کی قیمتوں پر آواز اٹھانے والے کے بارے من گھڑت اور جھوٹی کہانیاں جانے کس کس کو سنائی گئیں اور عوامی کی آواز اٹھانے والے کو سزا سنا دی گئی۔ خوشی ہے کہ جو موقف ہم نے اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے اٹھایا تھا آج ایک بڑی تحقیقاتی رپورٹ اسے سچ ثابت کر رہی ہے لیکن اس میں بھی عوامی مسئلے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اب اس بحران کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے تو حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے اس رپورٹ میں ان تمام طاقتوروں ہے نام شامل ہیں جو قوم کے ہمدرد بھی ہیں، ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلوں کی ذمہ داری بھی ان کے پاس رہتی ہے۔ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں یہ ہمیشہ حصہ دار رہتے ہیں اور ان کے لیے کوئی حکومت معنی نہیں رکھتی یہ سب کاروبار میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں یا ان کے کاروبار کسی حکومت کے محتاج نہیں ہوتے۔ ہم کسی کا نام نہ بھی لکھیں قارئین کو سب کا علم ہے۔ اخبارات و ٹیلی ویڑن کے ذریعے آپ تک ان تمام کے نام گرامی پہنچ چکے ہیں۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ ہمارے دور میں تین ارب روپے کی سبسڈی گرانٹ ہوئی اور ن لیگ کے چار سال کے دوران بائیس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ برآمد ہونے والے چینی سے طاقتور اوربااثر لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔
میاں شہباز شریف نے بھی تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کسی بھی کارروائی سے پہلے اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج کا منتظر ہوں جو پچیس اپریل تک مرتب کر لیے جائیں گے۔ یہ نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ہمیں آج بھی وزیراعظم عمران خان سے امید ہے کہ وہ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد چہروں کو دیکھنے کے بجائے حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔ رپورٹس تو ماضی میں بھی بنتی رہی ہیں عمران خان کو عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ حقیقی تبدیلی یہی ہو گی جب آٹا اور چینی بحران کے ذمہ داروں اس کے ذریعے مالی فائدہ حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ مالی فائدہ حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ انتظامی عہدوں پر سستی اور نالائقی کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ضروری ہے۔ انتظامی عہدوں پر ناکام افراد کی مسلسل موجودگی ایسے بحرانوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ رپورٹ ایسی نہیں کہ اسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح دبا دیا جائے گا۔ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کا اصل امتحان شروع ہو چکا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے سارا بوجھ حکومت پر ہے۔ یہ بوجھ ایک ہی طریقے سے اترتا ہے اور وہ طریقہ سادہ لیکن مشکل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم اس بارے کیا فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں رپورٹ کو دبایا گیا تو اس بوجھ تلے حکومت کے دبنے کا آغاز ہو جائے گا۔ حکومت کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ وہ اس بحران کے ذمہ داروں کو ساتھ بھی رکھے اور چلتی بھی رہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024